12 Jul

Nawaz Sharif Aur Imran Khan Keliya Aik Column-نواز شریف اورعمران خان کے لیے ایک کالم

تاریخ ایک ہی جیسے واقعات ردوبدل کے ساتھ دہراتی رہتی ہے۔ عقل مند وہی ہیں جو ان واقعات سے سبق حاصل کریں۔ضد اور انا کے ہاتھوں مصلوب نہ ہوں۔
آج تیرہ جولائی 2014 ہے لیکن تاریخ کا یہ واقعہ پورے دو سو دس برس پرانا یعنی تیرہ جولائی 1804 کا ہے۔
الیگزینڈر ہملٹن امریکا کا پہلا وزیرخزانہ اور امریکا کے صدر جارج واشنگٹن کا معتمد ساتھی تھا۔ اس نے ایک ماہر معیشت‘ سیاسی مدبر او رقانون دان کے طور پر اپنا لوہا منوایا۔ امریکا کے مشہور بنک‘”بنک آف نیویارک“ کی بنیاد بھی اسی نے رکھی۔ اس نے غربت میں آنکھ کھولی لیکن اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر تاریخ میں بہت بڑے مقام پہ جاپہنچا۔ دولت‘ عزت‘ شہرت اور مرتبہ لیکن اس کے باوجود اس کی زندگی کا اختتام ایک المیے پہ ہوا۔یہ انیسویں صدی کے اوائل کی بات ہے۔الیگزینڈر ہملٹن اور امریکا کے ایک سابق نائب صدر ”بر“ جو کل تک ایک دوسرے کے دوست اور حلیف تھے دشمنی کی راہ پر چل پڑے۔ یہ دشمنی سیاست کی وجہ سے تھی۔ بر کو شکایت تھی کہ وہ امریکا کا صدر بن سکتا تھا لیکن ہملٹن کی مخالفت کی وجہ سے ایسا نہ ہو سکا۔ دشمنی حد سے بڑھی تو وہ دونوں مرنے مارنے پہ تل گئے۔ اس زمانے میں بڑے لوگ اپنے اختلاف حل نہ کرپاتے تو Duel کا راستہ اپنالیا کرتے۔ یہ ایک انتہائی اقدام ہوتا تھا۔ ہملٹن اور بر کے دوستوں نے ان دونوں کو روکنے کی کوشش کی لیکن غصے نے ان کی نگاہوں پہ پٹی باندھ دی اور وہ نفرت کی یلغار میں اندھے ہونے لگے۔ ڈوئل کے لیے گیارہ جولائی 1804 کا دن مقرر ہوا‘ نیویارک‘دریائے ہڈسن کا مغربی کنارہ‘ وی ہاکن نامی جگہ۔ ہملٹن اور بر علی الصبح اس مقام پہ پہنچ گئے۔ ایک امریکا کا سابق وزیر خزانہ‘ جنگ ِآزادی کا ہیرو‘ اور دوسرا امریکی نائب صدر۔یہی نہیں‘ ان کی حیثیت اس سے بڑھ کر بھی تھی۔دونوں آزادی کے معمار بھی تھے۔ ہملٹن کی عمر انچاس برس اور بر اس سے کچھ ہی بڑا۔ گھڑیال بجا‘ حریف آمنے سامنے آئے‘ صلح کی ساری کوششیں ناکام ہو چکی تھیں۔ دونوں نے ایک دوسرے سے پشت جوڑی۔ مخالف سمت میں دس دس قدم آگے بڑھے۔ رومال ہلنے پر پھرتی سے پلٹے۔ گولیاں چلیں۔ ہملٹن کی گولی درخت کی ایک شاخ چیرتی ہوئی گزر گئی لیکن بر کی گولی نشانے پہ تھی۔ ہملٹن کے پیٹ کے نچلے حصے پہ لگنے کے بعد یہ گولی گھومتی ہوئی پسلیوں تک جاپہنچی۔ خون کا فوراہ سا پھوٹا اور ہملٹن اپنے ہی پاؤں پہ گر گیا۔

ہملٹن کو لگنے والازخم کاری تھا‘ وہ اس کی تاب نہ لاسکا اور اگلے روز یعنی بارہ جولائی کو دنیا سے رخصت ہوگیا۔کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ ہملٹن ایک بڑا آدمی تھا۔ وہ بر کے خون میں ہاتھ رنگنا نہیں چاہتا تھا۔ اس نے جان بوجھ کر غلط نشانہ لیا تھا۔ بہر حال یہ ایک اداس دن تھا‘ درد سے بھرا اور خون آلود۔ گولیوں کی آواز سے دریا ئے ہڈسن کا گہرا سکوت ٹوٹ گیا۔ معصوم پرندے انسان کوخون بہاتے ہوئے دیکھنے لگے۔ ہملٹن اور بر‘ امریکا کے دو بڑے سیاست دان‘ آج دنیا میں نہیں۔ وہ پرندے بھی کہاں ہوں گے جنھوں نے انھیں خون بہاتے ہوئے دیکھالیکن وی ہاکن نامی جگہ‘ دریا کا کنارہ‘ شاہ بلوط کے دیوقامت درخت ابھی بھی ہیں۔ شاید ان پرندوں میں نسل در نسل یہ کہانی بھی سنائی جاتی ہو کہ انسان کس قدر ضدی ہے۔
مجھے یہ کہانی اس لیے یاد آئی کہ آج تیرہ جولائی ہے ہملٹن کی تدفین کا دن۔اس کہانی کے یاد آنے کی ایک اور وجہ بھی ہے۔ مجھے آج سیاست ہی کے افق پر ایک اور طرح کی Duel ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ یہ Duel نیو یارک نہیں‘ نیویارک سے بہت دور اسلام آباد میں ہوگی۔تاریخ کا تعین ہو چکا ہے یعنی چودہ اگست 2014۔اسDuel کے کردار اور مقام مختلف ہیں لیکن ضد کا عالم مختلف نہیں۔
تاریخ ایک ہی جیسے واقعات ردوبدل کے ساتھ دہراتی رہتی ہے۔ عقل مند وہی ہیں جو ان واقعات سے سبق حاصل کریں اور یہ بھی یاد رکھیں کہ اختلافات کے حل کا کوئی پُر امن طریقہ بھی تو ہوگا۔