31 Oct

Capt. Asfand Yar Bukhari Shaheed-کیپٹن اسفندر یار بخاری شہید

شہید کی ماں نے گفت گو کا آغاز کیا تو ہر طرف خاموشی سی چھا گئی۔
اتنی گہری خاموشی کہ سانسوں کی آواز سنائی دینے لگی۔ ان کی بات دل سے نکلی اور دل تک پہنچ گئی۔یہ کوئی معمولی کہانی نہ تھی۔ شہید بیٹے کی کہانی اور وہ بھی ایک ماں کی زبانی۔ غم‘ دکھ‘ رنج اور محرومی۔ ہمت‘ حوصلہ‘ صبراور استقامت۔ اعتماد‘ یقین‘ فخر اور انکسار۔اتنے رنگ قوسِ قزح میں نہیں جتنے رنگ ماں نے بکھیر دیے۔ماں کو ہر دن‘ ہر لمحہ یاد تھا۔ وہ دن بھی جب اس کے بیٹے نے جنم لیا۔ وہ دن بھی جب اس کا بیٹا اس کی گود میں ہنستا‘ کھیلتا اور پرورش پاتا رہا‘ بڑا ہوتا رہا۔ وہ دن بھی جب وہ اس کی انگلی پکڑ کر کیڈٹ کالج حسن ابدال لے کر آئی۔ اس معصوم بچے کو اب یہیں رہنا تھا۔یہی درودیوار اس کے مستقبل کی ضمانت تھے۔ وہ نو عمر حسن ابدال کے علمی ماحول میں کھو گیالیکن اس کے سینے میں کوئی اور شے بھی پل رہی تھی جس کا نام شوق ِ شہادت تھا۔ یہ شے کسی کی عطا سے ملتی ہے اور اس شے کا خمیر جنو ن اور عشق سے اٹھتا ہے۔
یہ نوجوان غیر معمولی صلاحیتوں کا حامل تھا۔ ایک مؤدب شاگرد‘ مخلص دوست۔ پانچ سال کے دوران وہ ہرسال اول آیا۔ کھیلوں کے میدان میں سب سے آگے‘ شطرنج کا چمپئن اور بہترین مصنف اور مقرر۔ تقریر کرتے ہوئے اس کی آواز گونجتی تو سانسیں تھم جاتیں۔لکھنے بیٹھتا تو پھول بکھر جاتے۔ کیڈٹ کالج سے فارغ ہوا تو اس نے فوج میں جانے کا فیصلہ کیا۔ بہت سے لوگوں نے کہا ڈاکٹر بن جاؤ‘ انجینئربن جاؤ یا بیرون ملک چلے جاؤ۔ بہت کچھ ہے‘ دولت‘ عزت‘ شہرت‘ نیک نامی۔ ”ہاں لیکن شہادت نہیں!“۔ اس نے یہ کہہ کر انھیں خاموش کردیا۔کوئی اسے اس کی منزل کی طرف بلا رہا تھا۔ پاکستان ملٹری اکیڈمی اس کے وجود سے جگمگانے لگی۔ نرم دمِ گفت گو‘گرم دمِ جست جو۔ اس نے اپنی صلاحیتوں سے اساتذہ کو متحیر کردیا۔ جب وہ ملٹری اکیڈمی سے فارغ ہوا تو Sword of Honor جیت چکا تھا۔ ماں کو مبارک باد ملی”تم مستقبل کے سپہ سالار کی ماں ہو“ لیکن ماں اور بیٹے کے سینے میں جو شمع فروزاں تھی اس کا نام تو کچھ اور تھا۔ پھر بہت جلد وہ لمحہ بھی آگیا جس کی لوگ محض تمنا کرتے ہیں۔ وہ لمحہ جو مٹی کو دو عالم سے بلند کردیتا ہے۔18 ستمبر 2015۔ پشاور کے قریب بڈھ بیر کا فضائی مستقر۔دہشت گردوں کا وحشیانہ وار۔ خدشہ تھا کہ سیکڑوں لوگ خون میں نہلا جاتے لیکن یہ نوجوان ان کے سامنے کھڑا ہو کر حد ِ فاصل بن گیا۔اس نے د شمن کا ہر وار اپنے سینے پہ سہا اور برستی ہوئی گولیوں میں جامِ شہادت نوش کرگیا۔ جب کوئی حق کے لیے اٹھ کھڑا ہو تو اس کے سامنے کوئی ٹھہر نہیں پاتا۔ دشمن کا سرجھک گیا۔اعزازی شمشیر ملنے پر ماں نے کہا تھا”یہ حق کی تلوار ہے باطل پر گرے گی“ بیٹے نے محض چند برس بعد ماں کی بات کو سچ ثابت کردیا۔
یہ کہانی شہید اسفند یاربخاری کی تھی اور سنانے والا کوئی اور نہیں اس کی اپنی ماں تھی۔ ماں جس کی آغوش ِ محبت نے ایک نوجوان کو خدا کا محبوب بنادیا۔ جن پانچ سو بچوں کو یہ کہانی سنائی گئی وہ ملک کے بہترین سکولوں سے آئے تھے۔ کیڈٹ کالج حسن ابدال‘ PAF کالج سرگودھا‘ کیڈٹ کالج پٹراسی‘ کیڈٹ کالج سوات‘ ملٹری کالج جہلم‘ چناب کالج جھنگ‘ آرمی پبلک سکول ایبٹ آباد………… ان تمام بچوں کی آنکھوں میں آنسو تھے اور یہ خواب کہ وہ کب اسفندیار بنیں گے۔ شہید کی ماں نے کہانی ختم کی اور سیڑھیاں اترنے لگی۔ باوقار‘ پر نور۔روشنی کا ایک ہالہ اس کے گرد گھوم رہا تھا۔ شہید کی ماں کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔
سورج تو ہر روز طلوع ہوتا ہے لیکن یہ کوئی اور ہی دن تھا‘ کوئی اور ہی لمحہ۔میں خود پہ قابو نہ پاسکا۔ کالج کے پرنسپل میجر جنرل (ر) نجیب طارق کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔”کل تک یہ کالج اسفند یار کی پہچان تھا آج وہ ہماری پہچان بن چکا ہے“ پرنسپل نے آہستگی سے کہا۔ کیڈٹ کالج حسن ابدال میں ہونے والی یہ تقریب کیپٹن اسفند یار بخاری کی یاد میں منعقد ہوئی تھی۔ اسفند یار پانچ سال کالج کا بہترین مقرر رہا۔ اس سال ملک بھر کے سکولوں کے بہترین مقررین کو دعوت دی گئی کہ وہ اس کے نقشِ قدم پر چلنے کا عہد کریں۔وہ سب اسی جست جو میں وہاں پہنچے تھے۔ کچھ لوگ اس ملک کے مستقبل سے مایوس ہیں لیکن مایوسی کے اندھیروں میں یہ چند سو نوجوان ایک اور طرح کے عزم سے سرشار نظر آئے۔ گویا کہہ رہے ہوں کہ ہماری عظمت کے چراغ ضرورروشن ہوں گے اس لیے کہ ان میں اسفند یار جیسے شہیدوں کا لہو شامل ہے۔
شہید کی ماں کے دل سے نکلی ہوئی صدا‘ گلو گیر لہجہ‘ نم ہوتی ہوئی آنکھیں …… ہال میں موجود تمام لوگ نجانے کتنی دیر تک کھڑے ہو کر تالیاں بجاتے رہے۔ ان تالیوں کی بازگشت کبھی مدھم نہیں ہوگی۔کبھی مدھم نہیں ہوگی۔