07 Nov

Catchpole-کیچ پول

یہ ایک استاد کی کہانی ہے جس کے بارے میں اس کے ایک شاگرد نے کہا:
He was an educationist extraordinare, loved by his students,
admired by his peers, and honoured by heads of states…
اس کہانی کا آغاز آج سے سو برس قبل ہوتا ہے۔
کیچ پول نامی ایک نوجوان 1908 میں پیداہوا۔ اکیس سال کی عمر میں اس نے اکسفورڈ یونی ورسٹی سے تاریخ کی ڈگری حاصل کی اور پھر خود سے تاریخ لکھنے کا فیصلہ کرلیا۔1928 میں وہ ایک بحری جہاز میں سوار ہوا اور بائیس دن کے سفر کے بعد بمبئی پہنچ گیا۔ اس کی منزل ڈیرہ دون تھی۔ رائل انڈین ملٹری کالج(RIMC) اور یوں اس نے اپنی بقیہ زندگی ایک اجنبی سرزمین کے نام لکھ دی۔ 1953 تک وہ اس کالج سے وابستہ رہا۔ بہترین استاد‘ بہترین دوست‘ بہترین منتظم۔ ماؤنٹ بیٹن سے لے کر جنرل منٹگمری اور جواہر لال نہرو تک اس کی محنت کے دل دادہ تھے۔ RIMC سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ کے بعد بھارت سے کیچ پول کا دل بھر گیا اور اس نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔ وہ ایچی سن کالج میں پڑھانا چاہتا تھا لیکن یہاں پہنچے پر اسے حسن ابدال میں ایک نیا کالج بنانے کو کہا گیا۔ جب اسے علم ہوا کہ اس کا نام ایوب پری کیڈٹ سکول رکھا جائے گا تو وہ معترض ہوا اور اس نے نام بدلنے کی تجویز پیش کی۔ حکومت ِ پنجاب کو اس کی تجویز ماننا پڑی۔
کیڈٹ کالج حسن ابدال کی بنیاد 1953 میں رکھی گئی اور کیچ پول اس کا پہلا پرنسپل منتخب ہوا۔ کوئی بھی ادارہ سنگ و خشت سے نہیں بنتا۔ اخلاص‘ ایثار‘ جنو ن اور عشق۔ کیچ پول نے حسن ابدال کی بے آب و گیاہ مٹی میں محنت کے بیج بونا شروع کردیے۔ وہ پرنسپل بھی تھا‘ انگلش کا استاد بھی اور کرکٹ کا کوچ بھی۔ اگلے پانچ سال اس کی روزو شب محنت کی بدولت یہ ادارہ پروان چڑھتا رہا۔ اس نے ہزاروں قابل افراد پیدا کیے۔ فوجی جرنیل‘ سول سرونٹ‘ ڈاکٹر‘ انجینئر‘ ماہرین معاشیات‘جج‘ استاد…… 1958 میں جب وہ حسن ابدال سے ریٹائر ہوا تو مشرقی پاکستان میں ایک نیا کیڈٹ کالج تعمیر ہورہا تھا۔ کیچ پول سے اچھا انتخاب اور کوئی نہ تھا لیکن ایوب خان نے اسے رد کردیا۔ فیلڈ مارشل کو شاید حسن ابدال کے نام والی بات ابھی تک یاد تھی۔ لوگ بظاہر بڑے ہوجاتے ہیں لیکن پھر بھی چھوٹے ہی رہتے ہیں۔
اسی دوران کیچ پول کا تعارف ائیرمارشل اصغر خاں سے ہوا اور ان کے اصرار پر کیچ پول کو سرگودھا کا رخ کرنا پڑا۔PAF کالج سرگودھا اس کی اگلی منزل تھی اور نو سال اس نے ان نوجوانوں کی تربیت میں صرف کر دیے جو شاہین کہلاتے ہیں اور فضاؤں کو چیرنے کا عزم کرتے ہیں۔1966 میں وہ ساٹھ سال کا ہوا تو اس نے یہاں سے بھی رخصت لی اور ایبٹ آباد پبلک سکول جاپہنچا۔ رکھی ہے آج لذتِ زخم ِ جگر کہاں۔ابھی عمر کے تیس سال اور باقی تھے۔
اس سے کسی نے پوچھا آپ کب ریٹائر ہوں گے۔”استاد کبھی ریٹائر نہیں ہوتا۔جس دن میں ریٹائر ہو گیا وہ میری زندگی کا آخری دن ہوگا“۔ کیچ پول نے یہ کہا اور مسکرانے لگا۔ استاد کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ اس نے جو کہا تھا وہی ہوا۔ نوے سال کی عمر میں کمزوریِ صحت کی وجہ سے اسے ریٹائر ہونا پڑااور پھر اسی سال اس کا انتقال ہوگیا۔ کیچ پول نے زندگی بھر شادی نہ کی۔ شاید وہ دو محبتوں کا قائل نہ تھا۔ ستر سال کے دوران اسے تین بار انگلینڈ جانے کا موقع ملا لیکن وہ جلد ہی واپس لوٹ آیا۔کیچ پول کو اپنی والدہ سے بے حد محبت تھی۔ تمام عمر والدہ کو پیسے بھیجتا رہا۔ والدہ کا ذکر آتا تو اس کی آنکھیں آبدیدہ ہو جاتیں۔”میں یہ قرض کبھی ادا نہیں کرسکتا“۔
تفکر‘ تدبر‘ تحمل …… علم‘ ایثار اور شفقت……وہ ایک سچا استاد تھا جس نے تعلیم کو نہ تو مشغلہ سمجھا‘ نہ کاروبار بنایا۔ حکومت ِ پاکستان کی طرف سے کیچ پول کو ستارۂ امتیاز اورہلالِ امتیاز جیسے اعزازات ملے۔ اس کے شاگردوں نے جس طرح سرِ نیاز جھکایا وہ اس کے سوا ہے۔ ملکہ برطانیہ نے سر کا خطاب دینا چاہا لیکن شرط یہ رکھی کہ کچھ عرصہ برطانیہ آکے رہنا پڑے گا۔ کیچ پول کو شاگردوں سے زیادہ محبت تھی۔ ”اتنے دن انہیں کون پڑھائے گا“۔کیچ پول نے کہا اور سرکا خطاب لینے سے انکار کردیا۔ 2007 میں اس کی سوویں یوم پیدائش پر ایک بہت بڑی تقریب منعقد ہوئی۔ حسن ابدال جگمگا رہا تھا۔ بھارت سے اڑھائی سو کے لگ بھگ مہمان حسن ابدال پہنچے۔ وہ بھی کیا منظر تھا۔ واہگہ کا بارڈر ایک استاد کے احترام میں کھول دیا گیا اور اس کے شاگرد سرحدوں سے ماورا ء ہوگئے۔ اتنا بڑا ہجوم دیکھ کرکسی نے کہا کہ اگر استاد چاہے تو انسان سرحدوں سے بھی بلند ہوسکتا ہے۔ شاید اسی لمحہ کے لیے کیچ پول نے برطانیہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ کچھ لوگ تاریخ پڑھاتے ہیں کچھ لوگ تاریخ رقم کرتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنھیں کاتب ِ تقدیردونوں کام دے دیتا ہے۔ میں کیچ پول کی قبر پہ سر جھکائے کھڑا تھا۔ کیڈٹ کالج حسن ابدال کے پرنسپل میجر جنرل (ر) نجیب طارق میرے ہمراہ تھے۔ ہم دونوں قبر پہ آویزاں کتبے کی تحریر پڑھ رہے تھے:
Here lies that great soul who devoted his life to the cause of education. He was a teacher of the highest caliber whose loyalty to the cause never wavered. He was an epitome of dedication,
integrity and hard work. May his soul rest in peace.
ہمارے دامن میں کیچ پول جیسے کتنے استاد باقی ہیں۔ ہمارے ذہنوں میں ایک ہی سوال سرگرداں تھا۔