اس چھوٹے سے گاؤں کے بعد ہمارا اگلا پڑاؤ ڈیرہ اللہ یار تھا۔ اوستہ محمد روڈ۔اردگرد میلوں تک پانی کے سوا کچھ نظر نہ آیا۔ڈیرہ اللہ یار میں کئی سو لوگ جمع تھے جنہیں شمسی چراغ (Solar Lights) پیش کیے
سکھر کا وزٹ ختم ہوا۔ دکھ‘ درد‘ مایوسی‘ ٹوٹے پھوٹے گھر‘ دور تک پھیلا ہوا سیلابی پانی۔ پھر بھی لوگوں کے دل میں اُمید کی شمع جلتی رہی لیکن وہ جو غالب نے کہا: کون جیتا ہے تیری زلف کے
بنیتھنی ٹائجن نے گلوبل وارمنگ اور اس کے اثرات پہ قلم اُٹھا کے انسانیت کے خلاف ہونے والے جرائم کی نشاندہی بھی کی ہے اور ان اقوام کی بھی جو اِن سنگین جرائم کی مرتکب ہوئیں۔اس نے اپنی تحقیق میں
سکھر سے واپسی پر پھر یہ سوال اٹھا کہ اب کدھرکا رخ کریں۔ قرعۂ فال ڈیرہ اسماعیل خان کے نام نکلا۔ ڈیرہ اسماعیل خان خیبر پختونخوا کا ایک اہم شہر ہے۔ دریائے سندھ کے مغربی کنارے پہ واقع‘ جہاں دریائے
یہ مختصر سرگزشت ان چند دنوں کی ہے جو ہم نے سیلاب زدگان کے ساتھ گزارے۔ جنوبی پنجاب‘ سندھ‘ بلوچستان‘ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان۔ یہ روداد آنسو بہانے یا الزام تراشی کے لیے نہیں اصلاحِ احوال کے لیے ہے۔ اس
یہ مختصر سرگزشت ان چند دنوں کی ہے جو ہم نے سیلاب زدگان کے ساتھ گزارے۔ جنوبی پنجاب‘ سندھ‘ بلوچستان‘ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان۔ یہ روداد آنسو بہانے یا الزام تراشی کیلئے نہیں اصلاحِ احوال کیلئے ہے۔ اس میں جہاں
(یہ مختصر سرگزشت ان چند دنوں کی ہے جو ہم نے سیلاب زدگان کے ساتھ گزارے۔ جنوبی پنجاب‘ سندھ‘ بلوچستان‘ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان۔ یہ روداد آنسو بہانے یا الزام تراشی کے لیے نہیں اصلاحِ احوال کے لیے ہے۔ اس
(یہ مختصر سرگزشت ان چند دنوں کی ہے جو ہم نے سیلاب زدگان کے ساتھ گزارے۔ جنوبی پنجاب‘ سندھ‘ بلوچستان‘ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان۔ یہ روداد آنسو بہانے یا الزام تراشی کے لیے نہیں اصلاحِ احوال کے لیے ہے۔
(یہ مختصر سرگزشت ان چند دنوں کی ہے جو ہم نے سیلاب زدگان کے ساتھ گزارے۔ جنوبی پنجاب‘ سندھ‘ بلوچستان‘ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان۔ یہ روداد آنسو بہانے یا الزام تراشی کے لیے نہیں اصلاحِ احوال کے لیے ہے۔
قرطبہ کی یاد اور وطن واپسی۔ یہ سرما کے آخری دن ہیں۔ سردی اپنے عروج پہ ہے۔ جسم و جاں کو چیرتی ہوئی ہوا۔جی چاہتا ہے آتش دان کے پاس بیٹھے رہیں۔ لمبی ‘ طویل راتیں۔ یہ نعمت‘ لیکن