10 Apr

Denmark-ڈنمارک

ڈنمارک
خوب صورت لوگوں کے ساتھ سفر اور بھی خوب صورت ہوجاتا ہے۔
انور مسعود اور امجد اسلام امجد۔ شاعر‘ دانش ور اورمہربان دوست۔ چار دنوں میں دو ملک‘ دو شہر اور کئی تقریبات۔ ڈنمارک اور سویڈن کا یہ سفر عمیر ڈار کی دعوت پہ ہوا۔عمیر ڈارڈنمارک میں رہتا ہے لیکن اس کا دل پاکستان میں ہے۔”ہم کب سراٹھا کے جئیں گے۔ ہم کب غربت کی دلدل سے نکلیں گے۔ وہ سورج جس کی روشنی ہر گھر تک پہنچتی ہے‘ کب طلوع ہو گا۔“ یہی سوال اسے عمل کی طرف لے آیا۔خواب وہی تو نہیں جو سوتے ہوئے دیکھے جائیں۔ خواب تو وہ ہیں جو سونے ہی نہ دیں۔ ایسے ہی کچھ خواب عمیر نے بھی دیکھے اور وہ ان کی تعبیر پانے نکل پڑا۔ اس سفر میں وہ اکیلا نہ تھا۔ ثاقب تسنیم‘ ہادی خان‘ سلمان داؤد‘ آصف‘ رضوان‘ وسیم بیگ اور پھرنائلہ‘ صائقہ‘ صبا‘ نازیہ‘ امبر اور آمنہ جیسی بہادر خواتین۔
رفتہ رفتہ ایک کارواں بنتا گیا۔ان سب نے مل کر ڈنمارک میں ایک ادارہ بنا لیا جس کا نام Helping Humanity رکھا گیا۔ کچھ ہی دنوں میں یہ ادارہ مقبول ہونے لگا۔مقبولیت کی ایک ہی شرط ہے اخلاص۔ خدا نے ان سب کو اس دولت سے نوازرکھا تھا۔ انھوں نے کشکول اٹھایا اور گھر گھر دستک دینے لگے۔ خیر کی بھیک ما نگنا بھی تو خیرہے۔ ڈنمارک کے سیکڑوں دردمند لوگ جن کا دل پاکستان کے نام پہ دھڑکتا ہے‘ جو ہمہ وقت وطن کی تسبیح پڑھتے ہیں ان کے ساتھ کھڑے ہونے لگے۔ کڑی در کڑی
ایک حلقہ میں ہوں اس کا دوسرا حلقہ ہے تو
دور تک پھیلا ہوا ہے سلسلہ زنجیر کا
یہ زنجیر پھیلتی رہی۔ پاکستان کے کتنے ہی ادارے اس سے فیض یاب ہو ئے۔ سہارا‘ نمل‘ شوکت خانم‘مسرت مصباح ……ایک دن کسی نے سرزمینِ شام کے اجڑے ہوئے لوگوں کی کہانی سنائی۔ انھوں نے ان کو بھی اپنا لیا۔دکھ اور محبت کی کی سرحدیں نہیں ہوتیں۔ کچھ ہی عرصہ میں کروڑوں روپے بانٹ دیئے گئے۔ پھر اچانک تنظیم کے صدر ثاقب تسنیم نے اپنے دوستوں سے کہا ہم کب تک لوگوں کو مچھلی پکڑ کر کھلاتے رہیں گے کیوں نہ مچھلی پکڑنے کا فن ہی سکھا دیں۔فیصلہ کرنے میں دیر نہ لگی۔ قرضِ حسن پہ نگاہ گئی اور وہ اخوت کے پاس آن پہنچے۔اس رفاقت کے نتیجہ میں پاکستان میں ان کا دفتر کھل گیا۔ کچھ لوگوں کو قرضہ ملا اور وہ پاؤں پہ کھڑے ہوگئے۔ جگ مگ‘ جگ مگ ہونے لگی۔ کوپن ہیگن میں ہونے والی یہ خوب صورت تقریب اسی سلسلہ کا اگلا قدم تھی۔ثاقب‘ عمیر اور ان کے ساتھی چاہتے ہیں کہ روشنی کچھ اور پھیل جائے۔ اس شام کوپن ہیگن میں چار سو کے قریب لوگ یہ عہد کرنے آئے کہ وہ اپنے حصہ کی خوشیاں کسی اور کو دیں گے۔ غم بانٹنے سے کم ہوتا ہے اور خوشی بانٹنے سے بڑھتی ہے‘ ان سب پہ یہ راز کھل چکا تھا۔ ایثار‘ محبت‘ اخوت‘ بھائی چارہ۔ تاج محل نامی خوب صورت ہال میں ہونے والی یہ تقریب دردمندی کی تصویر تھی۔یہ تصویر امجد اسلام امجد کی دلگداز شاعری سے خوب صورت ہو گئی۔ اس پہ مستزاد عظیم شاعر انور مسعود کا کلام تھا۔ بڑی شاعری قہقہوں اور آنسوؤں کے امتزاج سے وجود میں آتی ہے۔ انو ر مسعود نے جس طرح چاہا ہنسایا اور جس طرح چاہا رلایا لیکن چہرے پہ کھلنے والی ہر مسکراہٹ اور آنکھ سے بہنے والا ہر آنسو اصلاحِ احوال کی آرزو لیے ہوئے تھا۔
اگلے روز سفیر ِ پاکستان مسرور جونیجو نے سفارت خانہ آنے کی دعوت دی۔ پچھلے کئی برسوں سے سفارت خانوں کا کردار بھی بدل رہا ہے۔ اب یہاں بے گانگی کی جگہ محبت نظر آتی ہے۔ مسرور جونیجو شاعری اور موسیقی کے حسن سے آگاہ تھے۔ ان کی زبان سے انور مسعود کی پنجابی شاعری اور بھی اچھی لگی۔فرصت ملی تو ہم نے عمیر سے کہا‘اس شہر میں کوئی ایک شے دیکھنی ہو تو کیا دیکھیں گے۔ عمیر ہمیں نیل بوہر(Neil Bohr) کی آخری آرام گاہ پہ لے آیا۔ نوبل انعام یافتہ یہ شخص انسانیت کا محسن تھا۔ بادشاہ‘ فاتح‘ جنگ جو‘ محل‘ عجائب گھر‘ سمندر‘ عمارتیں‘ اوپرا‘ کلب۔ میں بہت دیر تک سوچتا رہا کہ عمیر نے ان سب پہ ایک سائنس دان کو ترجیح کیوں دی۔کیا اسے علم تھا کہ سائنس کے افق سے ہی نئی دنیا طلوع ہو تی ہے۔کاش یہ راز ہم سب بھی جان لیں اور سائنس سے ہمارا ٹوٹا ہوا رشتہ جڑ جائے۔ کوئی تو جگنو کی طرح راستہ دکھائے۔کوئی میرِ کارواں‘ کوئی دیدہ ور‘ کوئی نیل بوہر!قبرستان کی خاموشی میں اقبال کی صدا گونجنے لگی ؎
نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے
وہی آب و گلِ ایراں وہی تبریز ہے ساقی
رات گئے بہت سے لوگ ایک بار پھر ثاقب کے گھر جمع ہوئے۔ وہ پاکستان کی باتیں سننا چاہتے تھے۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ کیا اب بھی وہاں پھول کھلتے ہیں‘ بہار آتی ہے‘ خوشبو پھیلتی ہے…… کسی نے کہا پاکستان تو لٹ گیا۔ کوئی حادثہ ہوجائے تو لوگ زخمیوں کو اٹھانے کی بجائے ان کی جیبوں سے بٹوے نکالنے لگتے ہیں۔ وہیں سے جواب آیالیکن وہ تمام زخمی‘ عبدالستارایدھی کی جس ایمبولینس میں ہسپتال پہنچتے ہیں وہ کون خرید کے دیتا ہے۔ قومیں غربت سے نہیں امید نہ ہونے سے تباہ ہوتی ہیں۔ ہم سب‘ دیارِ غیر میں بیٹھے‘ بہت دور‘ امید کا سورج طلوع ہوتا ہوا دیکھ رہے تھے۔
سوچتا ہوں کہ اس دیار سے دور
ایک ایسا بھی دیس ہے جس کی
رات تاروں میں سج کے آئے گی