05 Sep

Dr. Asif Jha-ڈاکٹر آصف جاہ

تھر پارکر۔ تیرہ لاکھ کی آبادی پر مشتمل یہ ضلع غربت اور افلاس کی منہ بولتی تصویر ہے۔ نہ بجلی‘ نہ پانی‘ نہ گیس‘ نہ سڑک‘ نہ سواری‘ سکول کہیں کہیں‘ ہسپتال دور دراز۔عورتیں علی الصبح گھڑے سروں پہ رکھے پانی لینے کے لیے نکلتی ہیں۔ بارش کے دنوں میں تالاب بھرنا شروع ہوتے ہیں۔ انسان بھی وہیں سے پانی پیتے ہیں اور جان ور بھی۔ ایک ایک کمرے کے گھر جہاں پانچ پانچ‘ چھے چھے افراد رہتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ لوگ جھگڑا نہیں کرتے‘ سچ بولتے ہیں۔جرم یہاں نہ ہونے کو ہے۔ تعصب کا نشان تک نہیں۔ غربت نے انھیں محبت کرنا سکھا دیا۔ نہ کوئی محمود ہے نہ ایاز…… اگر سب لوگ ایک جیسے ہوں تو غربت تنگ نہیں کرتی۔ مٹھی اور تھر پارکر میں ہر چند سال بعدقحط کا سماں رہتا ہے۔اس سال بارشیں نہ ہونے سے تالاب خالی رہ گئے۔ پانی ختم ہوا تو زندگی دو بھر ہونے لگی۔ بچے‘بوڑھے‘ نوجوان اور پھر جان ور۔سب پیاس سے بلکتے رہے۔ پانی اتنا کم تھا کہ پرندوں کی چونچیں بھی بھیگ نہ پائیں۔ صحراؤں میں اٹھتی ہوئی یہ پکار شہر تک پہنچی اور لوگ جوق در جوق لپکنے لگے۔ کچھ مدد کے لیے اورکچھ تصویر بنانے کے لیے۔ آنکھ کو تو منظر چاہیے۔ خواہ وہ کیسا ہی کیوں نہ ہو۔
ایسے ہی لوگوں میں ایک ڈاکٹر آصف جاہ بھی تھا۔ اس نے تھرپارکر کو اپنا گھر بنا لیا۔یوں تو پوراپاکستان اس کا گھر ہے۔اس فیصلہ کے بعد وہ تھر میں کنویں کھودنے لگا۔ ٹھنڈا میٹھا شیریں پانی۔ آصف جاہ نے اپنی کہانی سناتے ہوئے کہا ”میں نے تھر میں کچھ دن گذارے تو علم ہوا کہ تھر کا اکثر حصہ بے آب و گیاہ‘ریگستان ہے۔یہاں کے لوگ تو مظلوم ہیں ہی لیکن عورت سب سے مظلوم ہے۔ وہ گھر کے سارے کام کرتی ہے‘ کھیت میں جاتی ہے اور دوردراز سے پانی بھی لاتی ہے۔ کنوئیں مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث یا تو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں یا پھر خشک ہو چکے ہیں۔بے چاری عورت کو میل ہا میل کا سفر طے کرکے نجانے کہاں کہاں پہنچنا پڑتا ہے۔ یہ درد کی تنہائیاں یہ دشت کا ویراں سفر۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے مشورے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ پرانے کنوؤں کی مرمت اور نئے کنویں بنوانے کا کام شروع کیا جائے۔ مخیر حضرات سے رابطہ شروع ہوا۔ دنیا بھر سے عطیات آنے لگے۔ ہم نے مذہب کی تمیز کے بغیر تھر کے باسیوں کی خدمت کی۔ ہندؤوں کے گوٹھوں میں زیادہ کنوئیں بنوائے۔ ایک دفعہ میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس مرد اور رنگی برنگی ساڑھیاں اور کندھے تک چوڑیاں پہنے ہوئے عورتیں ہمارے پاس آئیں اور گڑگڑانے لگیں ”ہم بھیل اور کوہلی ذات کے ہندو ہیں‘ غریب ہیں‘ لاچار ہیں‘ بے بس ہیں۔ کوئی ذریعہ آمدنی نہیں۔ دو چار جانور تھے۔ وہ بھی بیماری سے مرگئے۔ ہماری عورتیں صبح سویرے چار بجے پانی کی تلاش میں نکلتی ہیں اور میلوں کا سفر طے کرکے پانی لاتی ہیں۔ مہاراج! اپنے اللہ اور رسول ﷺ کے نام کا ایک کنواں ہمارے لیے بھی کھدوا دو۔ ہماری عورتیں اور بچے آپ کو دعا دیں گے“۔اگلے روز ان کے گوٹھ میں سامان پہنچ گیا اور کنوئیں کی تعمیر شروع ہوئی۔ایک مہینے کی کھدائی اور بھرائی کے بعد کنواں مکمل ہوگیا اور اللہ کے فضل سے میٹھا پانی بھی نکل آیا۔ اب ان کا اپنا کنواں ہے‘ جہاں سے وہ خوشی خوشی پانی نکالتے ہیں۔الحمد للہ گذشتہ اڑھائی سال میں تقریباً دو سو گوٹھوں میں کنوئیں مکمل ہوگئے۔ ان کنوؤں سے عورتیں سیکڑوں گھڑے پانی بھر کر لے جاتی ہیں۔ ہر کنوئیں کے ساتھ جانوروں‘ موروں اور دوسرے پرندوں کے لیے پانی کے علیحدہ حوض بھی بنائے گئے ہیں“۔
ڈاکٹر آصف جاہ کی کہانی ختم نہ ہوئی۔ میرے ضبط کا دامن ٹوٹ گیا۔ ڈاکٹر کٹھاؤ مل کی یاد آنے لگی۔ مٹھی کا ایک سماجی کارکن اور دانش ور جس کا کہنا تھا کہ ”تھر میں تبدیلی اس وقت آئے گی جب ہمارے بچے سکول پہنچیں گے۔ ہمیں پانی سے زیادہ علم چاہیے۔ اگر کوئی صرف چند سال تک چند ہزار باصلاحیت بچوں کو کہیں اور لے جائے۔ اسلام آباد‘ کراچی‘ لاہور……یہ بچے کسی ایچی سن میں داخل ہوجائیں۔ کسی جی آئی کے‘ کسی آغا خاں‘ کسی لمز کا حصہ بن جائیں۔ پھر آپ کی مدد کی ضرورت نہیں رہے گی۔ یہ بچے پانچ دس سال بعد خود ہی تھر کو بدل دیں گے۔ تھر کو علم کی کچھ بوندیں درکارہیں۔ بس چند بوندیں‘ جل تھل تو خود ہی ہوجائے گا“۔کھٹاؤ مل بولتا رہا۔ بولتا رہا۔ اس کی آنکھوں میں بھی جل تھل ہو گیا۔
اس کی باتوں نے مجھے پھر سے آصف جاہ کی طرف متوجہ کردیا۔ پچھلے برس حکومتِ پاکستان نے اسے ستارۂ امتیاز سے نوازا۔ کسی نے کہا ”ڈاکٹر آصف کے لیے یہ ایک اعزاز کافی نہیں۔ وہ تو اس بات کا حق دار ہے کہ اسے ہر کنویں پر ایک ستارۂ امتیاز دیا جائے“ اور ہم ان لوگوں کا ذکر کرنے لگے جن کے وجود سے دردمندی قائم ہے۔ سلیم رانجھا‘ کامران شمس‘ اظہار الحق‘ ظفر قادر‘ جاوید نثار۔ اے خدا ان کی کاوشوں کو ثمر بار کر۔ اے خدا!سندھ‘ بلوچستان‘ خیبر‘ پنجاب‘ گلگت بلتستان‘فاٹا ……میرے وطن کو سرسبز و شاداب کردے۔اے خدا! تھر کو پانی اور علم کا نور دے۔