02 Jan

Ghurbat Akele Reh Jane Ka Naam Hai-غربت اکیلے رہ جانے کا نام ہے

دسمبر کی ایک یخ بستہ سہ پہر اورپرائم منسٹر آفس۔تین سو افراد۔ سکردو‘ لسبیلہ‘ کوہاٹ‘ لیہ‘ کوئٹہ‘ٹھٹھہ ……پورے پاکستان سے آنے والے یہ لوگ وزیراعظم قرضہ سکیم کی اس تقریب میں خصوصی طور پر مدعو کیے گئے۔تین سال قبل شروع ہونے والی یہ سکیم اب تک اڑھائی لاکھ گھرانوں کو بلاسود قرضے دے چکی ہے لیکن سب سے پہلے ان اڑھائی لاکھ کہانیوں میں سے تین کہانیاں جو ان قرضوں کی بدولت وجود میں آئیں۔
ضلع لیہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں کی طالبہ ثانیہ‘ عزم و ہمت کی چلتی پھرتی مثال ہے۔ رکشہ چلا کر خود اور سات دوسری بچیوں کو سکول لے جاتے‘ اسے جو بھی دیکھتا ہے خوشگوار حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ پینتالیس ہزار روپے کے قرضہ کی بدولت خریدا جانے والا پرانا رکشہ ثانیہ بی بی کیلئے اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنے کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ اضافی روزگار کا ایک وسیلہ بھی ہے۔ ثانیہ گاؤں کی دوسری لڑکیوں کو سکول لے جاتی ہے اور اس سے تقریباً چھ ہزار روپے ماہانہ کما رہی ہے۔ ثانیہ بی بی کو وہ وقت بھی یاد ہے جب اس کے والد محمد اعجاز کیلئے گھر کی کفالت کرنا‘ بچوں کو تعلیم دلانا اور نویں جماعت کو پہنچنے والی بیٹی کے سکول کا بندوبست کرنا ناممکن ہو گیا تھا۔ ثانیہ بی بی کا رکشہ گاؤں کی سڑک سے گزرتا ہے تولوگ اسے عزت سے دیکھتے ہیں۔وہ سکول کی ہونہار طالبہ ہے۔ اساتذہ اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور ماں باپ کو اپنی بیٹی پر فخر ہے۔ان ساری خوشیوں کی قیمت صرف پینتالیس ہزار ہے۔ جی ہاں پینتالیس ہزار کا ایک چھوٹا سا بلاسود قرضہ۔
ڈیر ہ اسماعیل‘ خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والی باہمت اور باصلاحیت روبینہ مسیح بیوٹی پارلر کے ذریعے اپنے خاندان کو مدد فراہم کررہی ہے۔ روبینہ نے اڑتالیس ہزار روپے سے اپنا پارلر قائم کیا۔اب اس کی ماہانہ آمدن تیس ہزارروپے ہو چکی ہے۔ روبینہ کا شوہر معمولی ملازمت کرتا تھا۔اس کی تنخواہ نو ہزارروپے تھی۔ آٹھ افراد پر مشتمل خاندان کے لیے یہ آمدنی انتہائی قلیل تھی۔ روبینہ ایم اے پاس تھی۔اس نے محلے کے بچوں کو ٹیوشن پڑھانا شروع کردیا لیکن وہ بمشکل ایک ہزار روپے ماہانہ کماتی۔کسی نے کہا بیوٹیشن کا کورس کرلو۔ اسے یہ مشورہ اچھا لگا اور وہ ایک سالہ بیوٹیشن کورس کے بعد ایک مقامی بیوٹی پارلر میں کام کرنے لگی۔ کچھ عرصہ بعد اس نے اپنا پارلر قائم کرنے کا ارادہ کیا۔ وزیراعظم کی بلاسود قرض سکیم کا پتہ چلا تو اس نے اڑتالیس ہزار روپے کی رقم بطور قرض حاصل کرکے اپنے خوابوں کا سفر شروع کردیا۔ روبینہ کی جدوجہد اس امر کا ثبوت ہے کہ ایک عورت کتنی بڑی منازل طے کرسکتی ہے۔ کچھ لوگوں نے حیرت سے پوچھا بوتیک اور صرف اڑتالیس ہزارمیں۔ جی ہاں صرف اڑتالیس ہزار میں۔
صوبہ سندھ کے ضلع ٹھٹھہ کے گاؤں جانی ہارو سے تعلق رکھنے والی بائیس سالہ بے بی۔بے بی کو چا رسال کی عمر میں شدید بخار نے معذور کردیا۔ غربت اور افلاس۔ اس کا خاندان اس کا علاج کروانے سے قاصر تھا۔ بے بی نے اپنا اور اپنی ماں کا پیٹ پالنے کے لیے بھیک مانگنا شروع کردی لیکن یہ کام عزتِ نفس پہ بوجھ تھا اور وہ قسمت بدلنے کا عزم کیے ہوئے تھی۔ ایک روز اس نے حوصلہ کیا اور سلائی کڑھائی کا کاروبار شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔اسے بھی وزیراعظم بلاسود سکیم سے قرضہ مل گیا۔ بے بی کی محنت رنگ لائی اور جلد ہی اسے کڑھائی کے آرڈر ملنے لگے۔ اس نے اپنے منافع سے کچھ رقم بچا کر ایک بکری بھی خرید لی۔ صرف ایک بکری۔ بکری کا دودھ اس نے فروخت نہ کیا، اس دودھ سے اس نے اپنی ماں کی ضروریات پوری کیں۔ بے بی کو یہ بتاتے ہوئے انتہائی خوشی محسوس ہوتی ہے کہ نوجوان لڑکیاں اسے ایک رول ماڈل کہتی ہیں۔ چلنے پھرنے سے معذور ہونے کے باوجودوہ کسی پر بوجھ نہیں۔ماں کے دودھ کے لیے جو بکری اس نے خریدی وہ کئی ریوڑوں پہ بھاری ہے۔
یہ تینوں کہانیاں سامعین کو مبہوت کرگئیں۔مجھے وزیراعظم کے ان الفاظ کی بازگشت سنائی دینے لگی جو تین سال قبل اس سکیم کے افتتاح کے موقعہ پر‘ اسی ہال میں ادا ہوئے۔”یہ کام سیاست نہیں۔ بس خدمت ہے۔ ایک فریضہ“۔ سٹیج پر وزیرخزانہ کے ساتھ خصوصی مہمان کی نشست پر اس خاتون کو بٹھایا گیا جسے اڑھائی لاکھواں قرضہ ملا۔ اس موقعہ پر وزیرخزانہ اسحاق ڈار اورپروگرام کی سربراہ محترمہ لیلیٰ خان نے بہت اچھی باتیں کیں۔ ان باتوں میں امید کی ایک لہر تھی۔ لیلیٰ خان نے کہا مجھے یقین ہے ہم بہت جلد پانچ لاکھواں قرضہ دیں گے لیکن وہ قرضہ فیصل مسجد میں بیٹھ کے دیا جائے گا۔بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی سربراہ ماروی میمن بھی موجود تھیں۔ ماروی نے ٹھٹھہ کی بے بی کو دیکھا تو فخر سے ان کا سربلند ہونے لگا۔آنکھوں سے آنسو بھی بہے۔سب سے زیادہ مسرت قاضی عظمت عیسیٰ کو ہوئی۔ پی پی اے ایف کے سربراہ۔ اس کامیابی کا تمام تر سہرا انھی کے سر ہے۔ انھوں نے اور ان کی ٹیم نے ایک ناقابلِ یقین کارنامہ سرانجام دیا۔فرید صابر‘ مجاہد‘ رضوان‘ بلال اور شہباز۔ ملک کے طول و عرض میں اڑھائی لاکھ گھرانوں سے یہ کہناکہ ہمت مت ہارو ہم تمھارے ساتھ ہیں‘ آسان نہیں۔ انھی کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد۔
مجیب الرحمان شامی ملے تو میں نے یہ بات سنائی۔ کہنے لگے ”بیس‘ تیس ہزار……یہ وہ رقم ہے جو ہم کسی ہوٹل میں کھانے پہ صرف کردیتے ہیں۔حیرت ہے یہ رقم ایک گھرانے کی زندگی بدل سکتی ہے“……میں انھیں کیسے بتاتا کہ غربت محرومی کا نہیں اکیلے رہ جانے کا نام ہے۔ ان قرضوں سے غربت ختم نہیں ہوئی لیکن کچھ دلوں میں اس احساس نے ضرور جنم لیا کہ وہ اکیلے نہیں۔وزیراعظم اور وزیرخزانہ نے تین ارب روپے سے اس احساس کو پروان چڑھایا۔ آپ بھی چاہیں تو چند ہزار دے کر یہ کام کرسکتے ہیں۔ اپنے گاؤں میں کسی ثانیہ بی بی‘ نوید احمد‘ روبینہ بی بی‘ نارائن داس یابے بی کو ڈھونڈیں۔ اسے بھیک کا راستہ نہ دکھائیں۔ بیس ہزار‘ تیس ہزار قرض دیں پھر دیکھیں کیا معجزہ رونما ہوتا ہے۔ یاد رہے اس قرض میں سود کا شائبہ نہ ہو۔