19 Dec

Gilgit Baltistan-گلگت بلتستان

قراقرم‘ ہندوکش‘ ہمالیہ……ان ناموں سے ذہن میں ایک ہی تصور ابھرتا ہے‘ گلگت بلتستان۔بہت دنوں بعد وہاں جانے کا اتفاق ہوا۔ ہر طرف غیر معمولی منظر اور قدرتی حسن۔ لوگ ہی نہیں پہاڑ بھی کروٹ لے رہے ہیں۔ گہماگہمی‘ رونق……امکانات کا ایک نیا افق طلوع ہونے کو ہے۔
وزیراعلیٰ گلگت بلتستان نے کچھ عرصہ قبل غربت کے خاتمہ کے لیے ایک پروگرام شروع کیا۔ وزیراعلیٰ خود روزگار سکیم۔ اس سکیم کا انتظام ”اخوت“ کے سپرد ہوا۔ پچھلے ماہ اس تاریخ ساز سکیم نے ایک ارب کا سنگِ میل طے کیا۔ یہ ایک منفرد اعزاز تھا اور یہ تقریب جس میں شرکت کی خصوصی دعوت ملی اسی سلسلہ میں منعقد ہوئی۔
وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حفیظ الرحمن‘ چیف سیکرٹری سید طاہر حسین‘ سینیئروزیر حاجی اکبرطبان‘ سیکرٹری یوتھ افیئرز بابر امان بابر‘ اخوت کے مقامی ساتھی اور وہ نوجوان جو اپنا کاروبار شروع کرنے کا ایک نیا عزم لے کر آئے۔ گلگت بلتستان میں اس کام کا آغاز تین برس قبل ایک مسجد میں ہوا جب اسی افراد کو پہلی بار قرضے دیئے گئے۔ قرضوں کی رقم سولہ لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ آج ان قرضوں سے مستفید گھرانوں کی تعداد چالیس ہزار اور قرضوں کی رقم ایک ارب سے تجاوز کرگئی ہے۔ کسی نے پوچھا یہ معجزہ کیسے ہوا۔ ہمارا جواب تھا مواخات۔ یہ نسبت ہی ایسی ہے کہ لوگ کھنچے چلے آتے ہیں۔
گلگت بلتستان کی کل آبادی تقریباً دو لاکھ گھرانوں پر مشتمل ہے۔ گویا بیس فی صد گھرانوں تک اس سکیم کی رسائی ہو چکی۔ آسان شرائط پر قرضے۔ ایک نئی امید کے ساتھ زندگی کا نیا آغاز۔ یہ سارے لوگ بلند و بالا‘ خوب صورت پہاڑوں کی گود میں پھیلے نو اضلاع سے تعلق رکھتے ہیں۔ گلگت‘دیامیر‘استور‘سکردو‘ شگر‘گھانچے‘ گیزر‘ہنز ہ اورنگر۔ یہ سب اس لازوال احسا س سے مزین ہیں کہ غربت کے خلاف جنگ میں ہم اکیلے نہیں‘ کچھ لوگ اور بھی ہیں جو ہمارے ساتھ ہیں۔ حکومت بھی اور سماجی کارکن بھی۔ یہی وہ احساس ہے جو بکھرے ہوئے لوگوں کو ایک قوم کا درجہ دیتا ہے۔
چالیس ہزار گھرانوں کو یہ قرضے کسی لسانی‘ گروہی‘ سیاسی یا مذہبی امتیاز کے بغیر ملے۔ کسی نے ان سے یہ نہیں پوچھا کہ تم کس فقہ کی مسجد میں نماز پڑھنے جاتے ہو اورکون سی زبان بولتے ہو۔ ایثار‘ قربانی اور رواداری کا ایک عظیم مظاہرہ۔غربت کے کوہِ گراں میں شگاف پڑنے لگا۔فرقہ واریت کا بت بھی پاش پاش ہوا۔ ان چالیس ہزار گھرانوں میں سے دس ہزار گھرانوں نے اپنے آنگن میں ایک ایک پیڑ بھی اُگایا۔ آڑو‘ سیب‘ ناشپاتی…… ہر پیڑ کا نام اخوت پیڑ ہے۔ ہر پیڑ مواخات کی اگلی کڑی ہے۔ یہ پیڑ اس سرزمین کو اور خوب صورت بنائے گا۔ شجرِ سایہ دار کا کوئی نعم البدل نہیں۔ ان پر لگنے والے پھل آمدنی میں اضافے کا باعث بنیں گے اوران کی شاخوں پر بیٹھنے والے پرندے گیت گائیں گے۔پرندے چہچہانے لگیں تو خدائے بزرگ و برتر کی رحمت سایہ فگن رہتی ہے۔ بلاسود قرضوں کی اس سکیم میں گلگت بلتستان کے تین سابق چیف سیکرٹریز سجاد سلیم ہوتیانہ‘ یونس ڈھاگہ اور سکندر سلطان کا خصوصی کردار رہا۔ موجود ہ چیف سیکرٹری طاہر حسین کی ہمہ وقت دل چسپی نے اسے اور بھی خوب صورت بنادیا۔ یہ تقریب کئی اعتبار سے یادگار ثابت ہوئی۔ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان نے اس موقعہ پر جو باتیں کہیں وہ لوگوں کے دل میں اترنے لگیں۔”ترقی وہی نہیں جس کی روشنی چند گھروں تک محدود ہو۔ ایک شخص بھی غریب ہے تو ہم سب غریب ہیں“۔
وزیراعلیٰ نے یہ بھی بتایا کہ امن و امان کی صورت حال بہتر ہوئی تو علاقہ کی کایا پلٹ گئی۔ سولہ لاکھ کی آبادی کے اس خطہ میں دس لاکھ سیاح پہنچ گئے۔ ہوٹلز میں جگہ نہ رہی تو لوگوں نے گھروں کے دروازے کھول دیئے۔ سکول بند تھے‘ عارضی طور پر وہاں بھی کیمپ لگ گئے۔ مہمانوں کے اس جم غفیر کے باوجود کوئی بد انتظامی دیکھنے میں نہ آئی۔ اگلے سال دس لاکھ سے بھی زیادہ سیاح متوقع ہیں۔ وزیراعلیٰ اس جنت کو ایک دنیا پر آشکار کرنا چاہتے ہیں۔سید طاہر حسین اور بابر امان کا شوق دیدنی تھا۔ ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ کیسے اس جگہ کا حسن بے نقاب کریں۔ طاہر حسین اور میں سول سروسز میں ایک ہی دن آئے۔ وہ چیف سیکرٹری بن گئے‘ ہمارے حصہ میں اخوت آئی۔ شام کے بعد آتشدان کے گرد بیٹھ کر باتیں ہوتی رہیں۔ کچھ یادیں‘کچھ خواب۔ بابر امان کا دستر خوان بھی وسیع تھاجہاں احسان بھٹہ اور وقار سے ملاقات ہوئی۔ سول سروس کے دو اور معتبر نام۔
پہاڑ‘ وادیاں اور مرغزار۔ جھیلیں‘ ندیاں اور آبشار۔دریائے گلگت اوردریائے ہنزہ اور پھر وہ مقام جہاں یہ سب مل کر دریائے سندھ میں ڈھل جاتے ہیں۔ قراقرم‘ ہندو کش اور ہمالیہ ……دنیا کی تین بلند ترین چوٹیاں یہیں ہم آغوش ہوتی ہیں۔ میں نے چند لوگوں سے پوچھا اس سال دس لاکھ سیاح کیوں آئے جبکہ کچھ عرصہ قبل یہ تعدادمحض چند ہزار تک محدود تھی۔”اس لیے کہ ہم نے لڑنا چھوڑ دیا۔ بہت دنوں سے یہاں کرفیو نہیں لگا۔ لوگوں کو اس بات کی خبر ہوئی تو جوق در جوق چلے آئے۔ جو نفاق کا بیج بوتا ہے وہ ہمارا دشمن ہے“۔
ہاں! جو نفاق کا بیج بوتا ہے وہ ہمارا دشمن ہے۔ بلند پہاڑ بھی یہی پیغام دے رہے تھے۔ دریائے سندھ کی موجوں پہ بھی یہی تحریر تھا۔ گلگت بلتستان اور شمالی علاقہ جات میں ایک نیا سورج طلوع ہو رہا ہے۔