30 Aug

Hum Badniyanat Nehen-ہم بددیانت نہیں

خواتین وحضرات!
کیا ہم واقعی ایک بددیانت قوم ہیں۔
یہ تہمت ہم پہ ہر روز لگتی ہے۔ ملک کے اندر بھی اور ملک کے باہر بھی۔ ہمارے دشمن اور دوست سب یہی کہتے ہیں کہ ہم جھوٹے بددیانت‘ خائن اور بے اعتبار لوگ ہیں۔ ہمارا میڈیا بھی اسی رو میں بہہ چکا ہے۔ٹیلی ویژن ہر روز صبح کی پہلی کرن کے ساتھ لعن طعن کا یہ کام شروع کرتا ہے اور پھر رات کے آخری پہر تک جاری رکھتا ہے۔ ہمارے قائدین‘ دانش ور‘ صحافی‘ پروفیشنلز‘ ڈاکٹرز‘ انجینئرز‘ بینکار‘ اہلِ فن‘ علما‘ اساتذہ‘ شاعر‘ ادیب‘ تاجر‘ صنعت کار اور بیرون ِ ملک بسنے والے پاکستانی سب یہی کہتے ہیں کہ ہم بددیانت ہیں۔ ہم نے ملکی خزانے کو لوٹ کر ویران کردیا‘ ہم بینکوں کے کھرب ہا روپے مالِ مفت سمجھ کر کھا پی گئے۔
خواتین و حضرات!
میں ان تمام الزامات کی صحت سے انکار کرتا ہوں۔ یہ سب حالات سے کم آگہی ہے۔ آیئے میں آپ کو اصل پاکستان کی تصویر دکھاتا ہوں۔ میں آپ کوپانچ لاکھ اکسٹھ ہزار پانچ سواڑتالیس گھرانوں کی گواہی دوں گا۔ اگر ہر گھرانے میں سات افراد ہوں تو یہ انتالیس لاکھ تیس ہزار آٹھ سو چھتیس لوگ بنتے ہیں۔ تقریباً چالیس لاکھ…… کچی بستیوں اور خستہ حال مکانوں میں رہنے والے یہ لوگ اخوت کے ساتھی ہیں اورآپ کو علم ہی ہے کہ اخوت قرضِ حسن فراہم کرنے والا سب سے بڑا ادار ہ ہے۔ اخوت یہ قرض بغیر ضمانت کے د یتاہے۔ جی ہاں کوئی شے گروی نہیں رکھی جاتی۔ نہ گھر نہ زیور‘ نہ جائیداد‘ نہ کوئی اور اثاثہ۔ سچ تو یہ ہے کہ ان لوگوں کے پاس ایسی کوئی شے ہے ہی نہیں جسے گروی رکھا جاسکے۔ وہ جو غالب نے کہا ؎

گھر میں کیا تھا جو تیرا غم اسے غارت کرتا
ہاں وہ اک حسرت تعمیر جو تھی اب بھی ہے
ان چالیس لاکھ افراد سے میرا رشتہ مارچ 2001 میں شروع ہواجب میں نے اپنی مرحوم والدہ سے اجازت لے کر مواخات ِ مدینہ کی روایت کے تحت ایک غریب گھرانے سے تعلق جوڑ لیا۔ یہ چالیس لاکھ انھی تیرہ برس کا حاصل ہیں۔ میں اور میرے دوست۔ مواخاتِ مدینہ کی گھنی چھاؤں تلے بیٹھ کر ہم نے ان چالیس لاکھ افراد کو نو ارب بانوے کروڑ انتیس لاکھ‘آٹھ ہزار آٹھ سو بیالیس روپے قرض کی صورت میں پیش کیے۔ غریب‘ مفلس اور قلاش‘ ان پڑھ‘ کم فہم اور جاہل۔ کیا آپ کو علم ہے کہ ایک ہزار کروڑ کی یہ رقم ان لوگوں نے کس شرح سے واپس کی…… ننانونے اعشاریہ اسی فی صد……یعنی ایک ہزار کروڑ میں سے صرف دو کروڑ ابھی تک واپس نہیں ہوئے۔اگر آپ نے کسی کو ایک سور وپے دیئے ہوں اور وہ وعدہ کے مطابق آپ کے گھر آکر سرجھکاتے ہوئے کہے کہ یہ ننانوے روپے اسی پیسے ابھی لے لو باقی بچنے والے ”بیس پیسے“ عنقریب لوٹا دوں گا تو کیا آپ اسے بددیانت‘ خائن‘ جھوٹا اور فریبی کہیں گے۔
خواتین وحضرات!
معاشی طور پر پاکستان ایک نہیں دو ملکوں پہ مشتمل ہے۔ امیر کا پاکستان اور ہے‘ ا غریب کا پاکستان اور۔ امیر کے پاکستان میں صرف دس لاکھ افراد بستے ہیں اور غریب کا پاکستان اٹھارہ کروڑ افراد پہ مشتمل ہے۔ یہ پانچ لاکھ پچپن ہزار ان اٹھارہ کروڑ کی نمائندگی کرتے ہیں جو غریب ہیں۔ امیروں کے پاکستان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ غریبوں کے پاکستان پہ بددیانتی کی مہر ثبت کرے۔ جب نیت اچھی ہو‘ نظام درست ہو‘ جب طریق کار شفاف ہو‘ جب جانبداری سے پرہیز کیا جائے‘ جب ہر طرف احتساب اور جواب دہی کا ماحول ہو تو پھر لوگ بددیانت نہیں ہوتے۔ میرا وطن اور میرے وطن کے لوگ اجلے کردار کے مالک ہیں۔ براہِ کرم دس لاکھ لوگوں کی ”کالک“ اٹھارہ کروڑ لوگوں کے چہروں پہ نہ ملیں۔ (امریکا کی ریاست ورجینیا میں پاکستانیوں سے ایک خطاب جہاں ایک پاکستانی امریکن کا خیال تھا کہ پاکستان میں اب صرف بددیانت بستے ہیں)۔