14 Jun

Istanbol Say Rawadari Ka Ak Pegham-استنبول سے رواداری کا ایک پیغام

یہ ترکی کے سلطان محمد فاتح کا پُر شکوہ محل ہے۔
محل کی دیوار کے ساتھ کھڑا میں بہت دور دیکھ رہا ہوں۔ آبنائے فاسفورس میرے سامنے ہے۔پُر سکون‘ گہرا نیلا پانی اور پانی کو چھو کر اُڑتے ہوئے پرندے۔ یہ پانی کہاں سے آتا ہے۔ یہ پرندے کہاں سے اُڑتے ہیں۔ یہ تیز ہوا کن ساحلوں کو چُھو کے یہاں پہنچتی ہے۔میں افق کے اس پار دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔
کہتے ہیں یہ محل دو ہزار سال پرانا ہے۔ اس کی فضا میں یونان‘ ایران‘ روم‘ ترک‘ وسطی ایشیا اور یورپ‘ ہر خطہ کی خوشبو مہکتی ہے۔ خواب‘ جد وجہد‘ آنسو‘ آہیں‘ جنگ اور خون‘ اس محل کی دیواروں پہ ایک طویل کہانی درج ہے۔ تہذیبیں کیسے بنتی ہیں اور کیسے بگڑ جاتی ہیں۔ وقت کی دُھول میں صدیاں کیسے گم ہوجاتی ہیں۔ خلقِ خدا کس طرح ظلم کا نشانہ بنتی ہے اور بادشاہ کیا گل کھلاتے ہیں۔ 1453 میں جب سلطان محمد فاتح نے اس محل میں قدم رکھا تو یہ جگہ سلطنتِ روم اور عیسائیت کا مرکز تھی۔ سلطان محمد فاتح‘ اکیس برس کا ایک بہادر نوجوان جس کا نام کانوں میں گونجتا ہے تو ایک حدیث کی بازگشت سنائی دیتی ہے:
”وہ کون لوگ ہوں گے جو قسطنطنیہ کو فتح کریں گے۔ وہ کیا شان دار سالار ہو گا جوا ن کی قیادت کرے گا“۔(مفہوم)
گھوڑوں کے سموں سے اُڑتی ہوئی دھول اور پسینے سے شرابور چہرے۔ ترک سپاہیوں کی ہمت بندھاتا ہوا نوجوان سلطان محمد فاتح جسے ایک ہی دھن تھی کہ بس اس شہر کو مغلوب کرنا ہے۔ محاصرے کے باون دن ۔ عزم و ہمت اور بہادری کی انوکھی داستان۔ بالآخر فصیل ِ شہر میں شگاف نمودار ہوتے ہیں۔ وہ فصیل جو دو ہزار برس سے قائم تھی منہدم ہوتی ہے۔ ایک سلطنت اختتام کو پہنچتی ہے اور ایک نیاسورج طلوع ہوتا ہے۔ ماضی کی راکھ پہ محمد فاتح کی تلواررواداری کا پیغام تحریر کرتی ہے۔ کبھی کبھی تلوار کی لکھی ہوئی تحریر بھی امر ہوجاتی ہے۔ سلطان محمد فاتح کی تلوار نے انسانی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کردیا۔ عیسائیت کا ایک اہم چراغ گل ہوا۔ اسے گل ہونا ہی تھا۔جب مذہب بادشاہوں کی کنیز بن جائے اورمنبر پر کم فہم مسندنشین ہونے لگیں توچراغ گل ہوجاتے ہیں۔سلطان محمد فاتح نے ماضی پہ گہر ی لکیر کھینچی اورقسطنطنیہ ہمیشہ کے لیے استنبول میں تبدیل ہوگیا۔ ایک عیسائی مصنف نے آنسو بہاتے ہوئے کہا:
“There has never been and there will never be a dreadful happening”
تاریخ بتاتی ہے کہ اتنی بڑی فتح کے بعد خون کی ندیاں بہنے لگتی ہیں۔نفرت اور انتقام کے شعلوں میں گھرے بچے‘ بوڑھے‘ عورتیں کہیں پناہ نہیں پاتے لیکن سلطان محمد فاتح نے اس عظیم الشان فتح کے بعد تلوار نیام میں ڈالی اور قسطنطنیہ کے باسیوں کو سلامتی اور امن کا پیغام دے دیا۔ یہ ایک حیران کن بات تھی۔اہلِ یورپ نے ایسا سلوک پہلے نہیں دیکھا تھا۔ یہی کچھ فتح مکہ کے دن ہوا تھا۔ اسی کی کچھ جھلک فتحِ قسطنطنیہ کے روز بھی دیکھنے کو ملی۔ رواداری کا یہی پیغام اسلام کی اصل روح ہے۔اس دین کا خمیر ہی سلامتی سے اٹھاتھا۔
اس واقعے کو صدہا برس گذر گئے۔ سلطنت ِ عثمانیہ سات سو برس تک قائم رہی اور پھر ایک روز اس کی عظمت بھی خاک میں مل گئی۔ترک جمہوریہ کے نام سے ایک نیا ملک وجود میں آیا۔ ماضی کے بجھتے ہوئے چراغوں میں ایک نئی لو نے انگڑائی لی لیکن مذہبی رواداری کی اس روایت پہ حرف نہیں آیا۔ نہ عبادت گاہوں پہ پہرے‘ نہ مذہب کے نام پہ خون کے دھبے‘ نہ دھماکے اور قتل و خون۔ کسی شخص کو اس لیے معتوب نہ ٹھیرایا گیا کہ وہ کسی اور خدا کی پرستش کرتا ہے۔
سلطان محمد فاتح نے یورپ کو سکھایا کہ فاتح مفتوحین کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں۔ تاریخ محوِ حیرت تھی اور لوگ انگشت بدنداں۔ استنبول سلطنت عثمانیہ کا دارالحکومت بنا اور دنیا بھر سے عیسائی اوریہودی یہاں کا رخ کرنے لگے۔ ایک پُرامن شہر دنیا کے نقشہ پہ ابھرا۔”گورے کو کالے پر اور عربی کو عجمی پر کوئی فضلیت نہیں۔ عظمت کا معیار رنگ اور نسل نہیں‘ تقویٰ ہے“۔ یہ شہران درخشاں اصولوں پہ تعمیر ہوا جو پہلی بار خطبہ حجتہ الوداع میں بیان ہوئے۔ سات سو سال تک قائم رہنے والی سلطنت کی عظمت کا ایک بڑا راز مذہبی رواداری بھی تھا۔مذہبی رواداری۔
استنبول میں ترکی کے سلطان‘ محمد فاتح کے پُر شکوہ محل میں آبنائے فاسفورس کے کنارے کھڑا‘میں بہت دور تک دیکھ رہا ہوں۔افق کے اس پار!