09 Jan

Kamyab Loag-کام یاب لوگ

کیا امارت بھی کوئی راز ہے؟
ان دنوں میں یہ راز جاننا چاہتا تھا۔ 1990۔ سول سروس سے نیا نیا رشتہ جڑا اور میری تعیناتی چنیوٹ ہوگئی۔ بطور اسسٹنٹ کمشنر۔چنیوٹ دریائے چناب کے کنارے ایک خوب صورت شہر ہے۔ قدیم اور شائستہ۔ اب تو یہ ضلع بن چکا ہے۔ میں یہاں پہنچا تو یہ شہر مجھے بہت مانوس لگا اور پھررفتہ رفتہ اس سے محبت ہونے لگی۔ محبت لوگوں سے ہی نہیں درودیوار سے بھی ہوجاتی ہے۔ محبت کے اپنے رنگ ہیں۔ میں اس شہر میں رہنے لگا اور یہ شہر میرے اندر۔ اس شہر میں کوئی اسرار تھا۔ ایک عجیب سی کیفیت۔ نانک شاہی اینٹیں‘ پر پیچ گلیاں اور ایک پرانے قلعہ کے کچھ آثار۔ جس گھر میں میں رہتا‘ وہاں برگد کا ایک بوڑھا درخت بھی تھا جس کے پتوں سے گئے زمانوں کی مہک آتی۔
اسرار کے پردوں میں لپٹا یہ شہر۔ میں ایک روز قدیم گلی کوچوں میں گھوم رہا تھا کہ ایک حویلی نظر آئی۔ عالیشان اور پرشکوہ۔ بتایا گیا کہ یہ حویلی 1928 میں بنی اوراس کی تعمیر پر اس وقت دو لاکھ روپے لاگت آئی۔ فرانس کا شیشہ اور بلجیم کے فانوس۔دیدہ زیب جھروکے اور کھڑکیاں۔عمر حیات محل نامی اس حویلی کے ساتھ ایک دل گداز کہانی بھی وابستہ تھی۔ یہ بھی بتایا گیا کہ شہر میں ایسی بہت سی اور حویلیاں بھی ہیں۔ سو‘ ڈیڑھ سو سال پہلے بننے والی یہ حویلیاں اب مٹنے ہونے کو ہیں لیکن کبھی یہ شان و شوکت کا گہوارہ تھیں۔ یہ حویلیاں چنیوٹ کی شیخ برادری نے بنوائیں جن کے کچھ بزرگ بہت عرصہ پہلے کاروبار کے لیے اپنے شہر سے نکلے اور پورے برصغیر میں پھیل گئے۔ان کا یہ سفر 1857 کے بعد شروع ہوا۔ اس وقت نہ ریل تھی‘ نہ موٹروے‘ نہ فون‘ نہ ڈاک‘ نہ انٹرنیٹ۔مغلیہ دور کا زوال شدہ سماجی ڈھانچہ اور یہ بے چین و بے قرار لوگ۔ کام یابی کی تمنا میں سرگرداں‘یہ کوئی نئی دنیا تخلیق کرنا چاہتے تھے۔ ان کی شب روز محنت اور آبلہ پائی ایک روز رنگ لائی۔ فٹ پاتھوں‘ ریلوے اسٹیشنوں پربار برداری اورکھالوں کی خرید سے جو کام شروع ہوا دیکھتے ہی دیکھتے کامیابی سے ہم کنار ہونے لگا۔ دکانیں‘ملیں‘فیکٹریاں‘بینکنگ‘ انشورنس‘ رئیل اسٹیٹ۔کہتے ہیں دولت کسی ایک شخص کی میراث نہیں۔ یہ اللہ کی دین ہے اور اس کی تقسیم کا نظام بھی منفرد ہے۔ ہمارے اردگرد جو لوگ آج ا میر ہیں کل وہ اتنے امیر نہ تھے اور جو غریب ہیں کل وہ اتنے غریب نہ رہیں گے۔ اسی اصول پہ یہ دنیا کھڑی ہے۔ تاہم ایک اصول یہ بھی ہے کہ غربت سے امارت کا سفر یوں ہی طے نہیں ہوتا۔ قدرت نے اس کے بھی کچھ اصول بنا رکھے ہیں۔
چنیوٹ شہر اور چنیوٹ کی شیخ برادری کی کہانی غربت اور امارت کی کہانی ہے۔جدوجہد اور جنون۔ یہ کہانی سن کے جو پہلا سوال میرے ذہن میں اٹھاوہ یہی تھاکہ چنیوٹ کے یہ لوگ ہجرت کرکے دور دراز شہروں میں تو پہنچ گئے لیکن یہ امیر کیسے ہوئے۔ وہ کیا خوبیاں تھیں جن کی بدولت ان کا کاروبار چمک اٹھا۔ میں نے کچھ سوال منتخب کیے اور جواب پانے کے لیے ان حویلیوں کے بند کواڑ کھٹکھٹانے لگا۔ پہلا سوال تھا کہ دولت کیسے کمائی جاتی ہے۔دوسرا سوال یہ تھا کہ کیا دولت صرف اپنے لیے ہوتی ہے یا اس میں دوسروں کو بھی حصہ ملنا چاہیے۔ چنیوٹی شیخوں کی تعداد سیکڑوں میں ہے اوران میں سے اکثر ارب پتی ہیں۔ایک طویل فہرست مرتب ہوئی اور میں تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ یہ ایک مشکل کام تھا۔ ان لوگوں کو ڈھونڈنا‘ ان سے ملنا‘ گفت گو کرنا اور بات کی تہہ تک پہنچنا۔ اس کام میں پندرہ برس بیت گئے اور بالآخر ایک کتاب مرتب ہوئی جس کا نام ہے ”کام یاب لوگ“۔اس کتاب میں دولت کمانے کا ہر نسخہ موجود ہے۔ بہت سے لوگ اس بات پر معترض ہوں گے کہ اس کتاب کا عنوان”کام یاب لوگ“ کیوں رکھا گیا؟ ان کے نزدیک کام یابی دولت کمانے کا نام نہیں۔ مجھے ان سے اتفاق ہے۔کام یا بی ”صرف“ د ولت کمانے کا نام نہیں۔ بس یوں سمجھ لیجئے کہ کتاب کا یہ عنوان کوئی مناسب عنوان دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے رکھا گیا۔
اس کتاب کی ساری باتیں دولت اور کام یابی کی باتیں ہیں۔ ہجرت‘ یقین‘ محنت‘ دیانت‘ کفایت شعاری اور اللہ کی راہ میں دینا۔یہ کتاب ہر اس شخص کو پڑھنی چاہیے جو رزق ِ حلال کی تلاش میں ہے اور جائز طریقے سے دولت کمانا چاہتا ہے۔ کتاب کا ایک اور مقصد ان لوگوں کا تذکرہ ہے جنہوں نے ہماری مٹی سے جنم لیا۔ بل گیٹس‘ وارن بفٹ‘ سیٹو جابز……یہ اجنبی لوگ کب تک ہمارے ہیرورہیں گے۔امانت‘ دیانت‘ صداقت‘ محنت ……یہ ہماری خوبیاں بھی تو ہیں۔یہ کتاب ان نوجوانوں کے لیے بھی ہے جو بڑے بڑے خواب دیکھتے ہیں لیکن پھر تھک ہار کر نوکر ی کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ اپنے کاروبار کا راستہ انھیں مشکل دکھائی دیتا ہے اور کام یابی کی آرزو کے باوجود بہت کم پر قناعت کرجاتے ہیں۔اس کتاب کا سب سے بڑا مقصد اخوت یونی ورسٹی کی تعمیر ہے جہاں اہلِ خیرکے تعاون سے ایک سکول آف بزنس کی بنیاد ڈالی جائے گی۔ چنیوٹ سکول آف بزنس!
اس کتاب کو بہت سے لوگوں نے پسند کیا۔ان کا کہنا ہے کہ انھیں اس کے افق سے ایک خوشحال پاکستان تعمیر ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ سنگِ میل پبلی کیشنز لوئر مال لاہور سے ملنے والی یہ کتاب آپ بھی پڑھ سکتے ہیں۔ اس کتاب میں ایک شہر ہے‘پراسرار شہر۔ نانک شاہی اینٹیں‘ پیچ در پیچ گلیاں اور برگد کے بوڑھے درخت جن کے پتوں سے گئے زمانوں کی مہک آتی ہے۔یہیں پر وہ سکول ہے‘جہاں ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھنے والے پانچ طالب علم کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر بنے۔یہ دنیا کے واحد شہر کی کہانی ہے جس نے ایک دو نہیں کئی سو ارب پتی پید اکیے۔آیئے ان سے پوچھیں یہ امیر کیسے ہوئے۔