20 Feb

Khushaal Waziristan Khushaal Pakistan(1)-(1) خوشحال وزیرستان‘ خوشحال پاکستان

یہ دو کالم وزیرستان کے بارے میں ہیں۔
شمالی وزیرستان۔کچھ روز پہلے یہ جگہ دہشت اور خوف کی علامت تھی اور آج ہم وہاں ایسے گھوم رہے تھے جیسے لاہور‘ اسلام آباد‘ پشاور یا کراچی میں ہوں۔ زندگی‘ ہل چل‘ گہماگہمی۔ فوج کی Escort نہ ہوتی تو بھی ہم اتنے ہی آسودہ ہوتے۔ کاروبار‘ گاڑیاں‘ سکول جاتے ہوئے ہنستے مسکراتے بچے۔ جابجا لہراتے ہوئے پاکستانی پرچم‘ خوب صورت کشادہ سڑک……شاہ صاحب نے میری طرف مڑ کر دیکھا اور کہنے لگے”یہ سب ضرب ِ عضب کا حاصل ہے“۔ہمارے اعتماد میں مزید اضافہ ہوا۔کچھ ہی دیر میں ہم میراں شاہ کے قریب اس مدرسہ میں پہنچے جو کبھی طالبان کا گڑھ تھا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں دہشت گرد کمانڈر حافظ گل بہادر کی دستار بندی ہوئی تھی۔تعصب‘ جہالت اور نفرت۔ یہیں خون آشام منصوبے بنتے‘ یہیں معصوم لوگوں کو جنت کی بشارت ملتی۔ قریب ہی وہ بازار تھا جس کا ایک کنارا ”آدم خور“ چوک کے نام سے مشہور ہوا۔یہاں بیسیوں بے گناہوں کو بے دردی سے لٹا کر ذبح کیا گیا۔پاکستان سے محبت کرنے والا کوئی معصوم۔ پاک فوج کو کوئی بھولا بھٹکا سپاہی۔ گلے پہ کند چھری چلتی اور خون کی دھار بکھر جاتی۔ ان کا جرم کیا تھا۔ وطن سے محبت۔یہ بھی کلمہ گو تھے۔ رسول اللہ ﷺ کو ماننے والے۔ان کے سروں کو فٹ بال بنا کر چنگیز خان کی یاد تازہ کی جاتی۔ ایک دو بار نہیں۔ ایسا کئی بار ہوا۔کیا قیامت بہت دور ہے جب خدا کے روبرو یہ سوال ہو گا کہ انسانیت کی قبا تار تار کیوں ہوئی۔گل بہادرافغانستان بھاگ گیا۔ یہ مدرسہ اب سکول میں تبدیل ہوچکا ہے جہاں
(Waziristan Institute of Technical Education – WITE) کے نام سے بچوں کو کمپیوٹر‘ آٹو میکینک‘ انجینئرنگ سروے اور ہیوی مشینری آپریٹر کی تربیت دی جاتی ہے۔ پہلا کورس اگست 2016 میں شروع ہوا او ر آج چھ ماہ بعد اس کی گریجویشن تقریب تھی۔ ہمیں بھی اس تقریب میں بطورِ مہمان مدعو کیا گیا۔
وزیرستان انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن‘پاک فوج کی ساتویں ڈویژن کا کارنامہ ہے اور ایک بڑی حکمت عملی کا حصہ۔ شمالی وزیرستان کے ایک سو پینتیس نوجوانوں کو پہلے مرحلہ میں تربیت ملی۔ کرنل عمر اور بریگیڈئیر عطا کا کہنا تھا کہ دہشت کی کہانی ختم ہوچکی مگر قربانیوں کا باب بند نہیں ہوا۔ اب ہمارے روبرو چار مقاصد ہیں ……معاشی ترقی‘ قومی یک جہتی‘ روزگار کے مواقع اور نوجوانوں کی قومی دھارے میں شرکت۔ صرف شمالی وزیرستان میں اس طرح کے چار ادارے قائم ہیں۔ تربیت کا ایسا ہی ایک ادارہ خواتین کے لیے بھی بن چکا ہے۔یہی وہ سرزمین ہے جہاں لڑکیوں کے سکول صفحہئ ہستی سے مٹ گئے۔ لیکن نہیں‘ اب وہاں بیٹیاں کمپیوٹر سیکھیں گی۔ ایک کھڑکی سی ہے‘ جو کھلتی ہے۔موسم بدلتے ہوئے دیر نہیں لگتی۔
شمالی وزیرستان وہ عظیم سرزمین ہے جہاں سات سو تہتر جوانوں اور افسروں نے جامِ شہادت نوش کیا۔ شہیدوں کا یہ خون‘ سرمایہئ حیات ہے۔ مقدس اور معتبر‘جو رنگ اور خوشبو کی طرح فضاؤں میں گھل گیا۔غالب کا شعر یاد آیا ؎
سب کہاں کچھ لالہ وگل میں نمایاں گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں
اسی پہ اکتفا نہیں۔ دوہزار سے زائد نوجوان زخمی بھی ہوئے۔ ٹانگوں‘ ہاتھوں اور بازوؤں سے محروم۔کسی کی بینائی چلی گئی کوئی سماعت سے محروم ہو گیا۔ یہ کون جری ہیں جو اس دکھ کو انعام سمجھ کر سینے سے لگا گئے۔ جب ہم بنوں سے شمالی وزیرستان کی طرف نکلے تو ایک خوف سا تھا جو کچھ ہی دیر میں جاتا رہا۔ پتھریلے پہاڑ‘ کہیں کہیں سبزہ‘ سردزمستانی ہوا‘ قلعہ نما گھر‘ ندی نالوں کامچلتا ہوا پانی‘ کھجوروں کے جھنڈ اور کانوں میں گونجتا ہوا سرمدی نغمہ…… ”تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے“۔ کرنل منعم اور شاہ صاحب کی معیت نے سفر کو خوب صورت بنادیا۔ کرنل منعم کی ایک عمر فوج میں گذری۔شمال سے جنوب‘ پاکستان کی شاید ہی کوئی جگہ ہو جہاں ان کے قدم نہیں پڑے اور شاہ صاحب طویل عرصہ کے پی حکومت میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے اور اب اخوت سے منسلک ہو کر نئی کہانی لکھ رہے ہیں۔
”اخوت شمالی علاقہ جات میں قرضوں کی سب سے بڑی تنظیم ہے“۔شاہ صاحب نے بتایا۔”سترہ ہزار گھرانوں سے مواخات کا رشتہ جڑا۔ پچاس کروڑ کے قریب قرض ِ حسن پیش ہوا۔ نہ سود‘ نہ نفع……سار ا کام مسجد میں بیٹھ کے ہوا۔ ایثار‘ قربانی‘ بھائی چارہ۔ لوگ اپنے کاروبار میں جت گئے۔ کسی نے کہا شورش زدہ علاقوں میں کیا کاروبار ہو گا‘ یہ ساری کی ساری رقم ڈوب جائے گی۔ سو فیصد شرح واپسی اس کا جواب تھا۔ ہر ماہ کی پانچ تاریخ کو دفتر پہ دستک ہوتی ہے اور ہر قرض دہندہ قسط کی رقم لیے باہر کھڑا ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ اضافی رقم بھی دیتے ہیں۔ ”یہ ہماری طرف سے عطیہ ہے۔ اگر ہماری زندگی تبدیل ہوئی تو کسی اور کا بھلاکیوں نہ ہو“۔
دوستوں کو بھی ملے درد کی دولت یا رب
صرف میرا ہی بھلا ہو مجھے منظور نہیں
یہ ہے وزیرستان۔ یہ ہیں شمالی علاقہ جات۔یہ ہے مواخات کا معجزہ!
کیپٹن عماد کی قیادت میں ہم WITEپہنچے تو کرنل عمر ممتاز اور بریگیڈئیر عطاء الرحمان نے یوں استقبال کیاجیسے اک عمر کے بچھڑے ہوں۔ پنڈال کی خوب صورتی سے ”منعم بکوہ و دشت و بیاباں غریب نیست“ والی کہاوت یاد آنے لگی۔ بڑی محبت سے بٹھایا گیا۔ ملک اور خوانین اپنی پگڑیوں سمیت براجمان تھے۔ غرورِ عشق کا بانکپن بھی شاید ایسا ہی ہو۔ عمران آفریدی پولیٹیکل ایجنٹ‘ سول افسران‘ اخوت کے مہتاب علی اور محسن حفیظ اور شمالی وزیرستان کے وہ نوعمر جو تربیت لے کر نکلے۔ کور کمانڈر مہمانِ خصوصی تھے لیکن کسی وجہ سے تشریف نہ لاسکے۔ جنرل آفیسر کمانڈنگ میجر جنرل حسن اظہر حیات پہنچے اور تقریب شروع ہوئی۔ عزم‘ حوصلہ‘ ایثار اور خدمت۔ خوشبو سی بکھرنے لگی۔