Los Angeles-لاس اینجلس
اک بلندی پہ بنا خوب صورت گھر۔ شائستگی اور نفاست کا نمونہ۔ کھڑکی سے دیکھیں توباہر نشیب میں‘ دو ر تک‘پھیلا ہو ا شہر۔ یہ لاس اینجلس ہے۔ روشنی‘ قمقمے‘ جھلمل ……جیسے وادی میں جگنوؤں کی کوئی بارات نظر آئے۔کرمکِ آوارہ۔ نیم وا دریچے سے ہلکا سا جھونکاآیا اور یوں لگا جیسے بہار نے گھیر لیا ہو۔ یوں تو کیلی فورنیا میں ہرطرف دولت بکھری پڑی ہے لیکن یہاں کی اصل دولت خوب صورت موسم ہے۔ جسم و جاں کو معطر کرتا‘ روح میں اترتا‘ دلوں کو چھوتا‘ نغمے بکھیرتا۔ لگتا ہے قدرت نے انسان کو سامنے بٹھا کر پوچھا‘ کیا چاہتے ہو‘ اور پھر ذوق ِ جمال کے عین مطابق اہتمام کردیا۔ بیس کے قریب مہمان۔ میزبانی کا شرف عامر راؤ اور ان کی بیگم ارم راؤ کو حاصل ہوا۔وہ اس شرف سے بخوبی آشنا تھیں۔ ہفتے کے دنوں میں عام طور پر اتنے مہمان نہیں آتے لیکن یہ عامر راؤ اور اظہر حمید کا جادو تھا کہ سب چلے آئے۔ فیض نے شاید ایسے ہی موقعہ کے لیے کہا ؎
بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی
تمھارے نام پہ آئیں گے غمگسار چلے
ایسی تقریب میں موضوعات کی کمی نہیں ہوتی۔ موسم‘ کاروبار‘ سیاست‘ ادب‘ شاعری‘ فیشن‘ کھیل لیکن کسی کی نظرادھر نہیں گئی۔ آج ان کا موضوع کچھ اور تھا۔ غربت سے نجات‘ جہالت کا خاتمہ۔ امید کی کوئی کرن‘ یقین کا کوئی ستارہ۔ ”پاکستان سے اچھی خبر آتی ہے تو حوصلہ بڑھ جاتا ہے“۔اظہر حمید نے بات شروع کی تو روشنی سی بکھرنے لگی۔کچھ چراغ باہر تھے کچھ دلوں میں جلنے لگے۔ چشم ما روشن دلِ ماشاد۔
”لاس اینجلس نامی اس خوب صورت شہر میں ہمیں کون لایا۔ قدرت کی یہ نعمتیں ہمیں کیسے ملیں۔ گھر‘ بار‘ دولت‘ سکون‘ اطمینان‘ اولاد‘ مستقبل۔ کیا یہ سب ہماری محنت کا حاصل ہے۔ یہ سب انعام بھی تو ہوسکتا ہے۔ کسی کی عطاء۔ شاید ہم کسی امتحان سے گذر رہے ہوں۔ نیکی کا راستہ کیا یوں ہی مل جاتا ہے“۔ اظہر حمید نے بہت سے سوال کیے‘ بہت سے جواب دیئے۔ یہ سب سوال اپنے اندر سوال در سوال تھے۔ اظہر حمید سیٹزن فاؤنڈیشن کا بورڈ ممبر ہے۔ ملک بھر میں پھیلے ہوئے سیکڑوں سکول اس کی اور اس کے ساتھیوں کی محنت سے تعمیر ہوئے۔ وہ اور عبداللہ جعفری جس کام کو ہاتھ لگائیں‘ بس وہ ہوجاتا ہے۔گویا‘ ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ۔ اب انھوں نے اخوت کا علم بھی اٹھا لیا ہے۔کوئی کسی پرہمت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا اور ہمت بھی توکسی کی عطا ہے۔ وما توفیقی الا باللہ……
فاروق عزیز اور سنی پنوار لاس اینجلس میں اخوت کے اولین دوست تھے اور پھر انھوں نے اظہر حمید کو ڈھونڈ لیا۔ اہل ِ درد کو ڈھونڈنا گو آسان نہیں۔ میرنے کچھ ایسا ہی کہا تھا ؎
منہ پہ رکھ عارضِ گل روئیں گے مرغانِ چمن
ہر روش خاک اڑائے گی صبا میرے بعد
اب وہ سب مل کر مواخات کا پیغام دیتے ہیں۔”ایک خاندان ایک خاندان کو اپنا لے تو بہت سے دکھ کم ہوسکتے ہیں“۔ ”اللہ کی راہ میں دینے سے کبھی کمی نہیں آتی“۔مجھے یاد آیا یہ تو وہی راز ہے جو ایک بار مولائے روم ؒنے فاش کیا۔ ”میں تمام عمر اس شخص کو ڈھونڈتا رہا جو اللہ کی راہ میں دینے سے غریب ہو گیا ہو۔ شہر شہر‘ بستی بستی لیکن مجھے ایسا شخص نہیں ملا“۔ اظہر نے بتایا‘ایک بار کسی نے جھنجلا کے کہا”ہم کب تک دیں گے“۔ اظہر کا جواب تھا ”جب تک اللہ آپ کو دے رہا ہے“۔ ایسی ہی باتوں میں رات ڈھلتی رہی۔کچھ لوگ البتہ خاموش تھے شاید دینے والے خاموش ہی رہتے ہیں۔
میں نے اخوت کی کہانی سنائی تو کچھ دیئے اور جلنے لگے۔ ہر طرف امید ہی امید بکھری نظر آئی۔کہانی ختم ہوئی تو ایک شخص نے میرا ہاتھ پکڑا اور ایک جانب لے گیا۔ اس کی نگاہوں میں اضطراب تھا۔ٹوٹے ہوئے لہجے میں اس نے کہا ”ولی خان یونی ورسٹی کے طالب علم مشال کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے بعد بھی آ پ پُر امید ہیں“۔ میرا سر شرم سے جھکنے لگا۔یوں لگا اس بلند و بالا گھر سے نیچے لڑھکنے لگا ہوں‘ دور وادی کے کسی گڑھے میں۔ میں نے ہمت کرکے کہا۔ ”ہاں میں ابھی بھی پُر امید ہوں۔ اس جم غفیر میں کچھ لوگ ایسے تھے جنہوں نے اس وحشت کو برا سمجھا اور واپس پلٹ گئے۔ اندھیرے کو پیغام دینے کے لیے ایک شمع ہی درکار ہے۔جب تک اس ہجوم میں ایسا ایک شخص بھی موجودہے‘ میری امید نہیں مر سکتی“……بلندی پہ تعمیر گھر۔ نشیب میں جھلملاتے ہوئے چراغ۔ دریچوں سے آتی ہو ئی ہوا اور کچھ منتخب لوگ جنہوں نے بہت سال پہلے اپنا سفر شروع کیا اور پھر وقت کے چہرے پہ ان مٹ نقوش ثبت کردیئے۔شعیب‘ احمد‘ اشرف‘نوید‘ اعظم‘ محسن‘ انور‘ باسط‘ علی……یہ سب اظہر کے دوست تھے۔دردمند اور فیاض۔ ”جب تک ایک شخص بھی ظلم کے سامنے سینہ سپر ہے میری امید کیسے ٹوٹ سکتی ہے“۔ میں نے ایک بار پھر ہمت کرکے کہا۔
لاس اینجلس کی یہ شام دیر تک یاد رہے گی۔ اس شام لوگوں نے اپنے بارے میں نہیں دوسرے کے بارے میں سوچا۔ کسی اور کا بچہ سکول کیوں نہیں جاتا۔ کسی اور کی ماں کو دوا کیوں نہیں ملتی۔ کسی او رکے پاس چھت کی نعمت کیوں نہیں۔ صاف پانی‘ روزگار‘ انصاف۔ یہ سب اگر ہمارے لیے ہے تو دوسروں کے لیے کیوں نہیں۔ رہی مشال خان کی بات تو گہرے سناٹے میں احتجاج کی ایک صدا بھی کافی ہے۔کہیں دور جھلملاتی ہوئی ایک شمع بھی یہ اعلان ہے کہ روشنی نے شکست نہیں کھائی۔