Malu Masali Aur Yakam May-مولو مصلی اور یکم مئی
یکم مئی‘ مزدوروں کا عالمی دن۔ یہ تحریر ایک مزدور کے شب و روز کی کہانی ہے۔
بہت عرصہ پہلے ایک بار چند پولیس افسران نے مقدمہ قتل میں نامزد ایک ملزم کے گھر تلاشی لینا چاہی تو جواب ملا خبردار! یہ چودھریوں کا گھر ہے۔ کسی مولو مصلی کا نہیں۔ اس پر پولیس افسران نے ہاتھ جوڑے‘ معافی مانگی اور یہ کہہ کر واپس لوٹ آئے کہ ہمیں علم نہ تھا کہ”یہ چودھریوں کا گھر ہے۔ مولو مصلی کا گھر ہوتا تو کب کے داخل ہو چکے ہوتے “۔
مولو مصلی جس کا اس حقار ت آمیز لہجے میں ذکر ہوا کون بدنصیب ہے؟ اس کے گھر اور چودھریوں کے گھر میں کیا فرق ہے؟ کیا اس کی ماں‘ بہن اور چودھریوں کی ماں‘ بہنیں برابر نہیں۔ مولو مصلی کے گھر میں تو پولیس بلا دریغ گھس سکتی ہے لیکن چودھریوں کے گھر پہ دستک دے تو محافظ سینہ تان کے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس تحقیر آمیز لہجے پہ نہ تو کسی نے چودھریوں سے باز پرس کی اور نہ کسی نے پولیس سے پوچھا کہ ان کے نزدیک چودھری اور مصلی یکساں کیوں نہیں؟مالک کو مزدور پہ‘گورے کو کالے پہ‘ امیر کو غریب پہ اور چودھری کو مصلی پہ فوقیت کیوں حاصل ہے……چند الفاظ پر مشتمل یہ محض ایک خبر نہیں بلکہ ایک المیہ ہے جو ہمارے سیاسی و معاشی نظا م اور سماج کی مکمل تصویر پیش کرتا ہے۔ اس خبر میں صدیوں سے جاری اس ظلم کی ایک جھلک ملتی ہے جو آج کروڑوں مولو مصلیوں کا مقدر بن چکا ہے۔
چودھری اور مولو مصلی دو افراد یا دو گھرانوں کا نام نہیں بلکہ زندگی کی دو زندہ حقیقتیں ہیں۔ چودھری معاشرے کے طبقہ بالا کی نمائندگی کرتا ہے اور مولو ان کروڑوں افراد کا نام ہے جو چودھریوں‘ ملکوں‘ خانوں اور سرداروں کے ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ وہ بدنصیب جو ریاستی اداروں سے ہر روز چھتر کھاتے ہیں۔مولو مصلی نے جب سے جنم لیا نا انصافی کی صلیب پہ لٹک رہا ہے۔ اس کی کہانی انسانی ضمیر پہ سب سے بڑا تازیانہ ہے۔ اس کا وجود انسانیت پہ عائد بدترین فرد جرم ہے۔ اس کے چہرے پہ لکھی ہوئی داستان ہمیں دکھائی نہیں دیتی۔ اس کی پتھرائی ہوئی آنکھیں بینائی سے محروم ہو چکی ہیں اور چودھری اس کی پگڑی کو پھندا بنا کے اسے بازاروں میں گھسیٹتے پھرتے ہیں۔
بے چارے مولومصلی کے ذکر پہ ہی کیا موقوف‘ اس کی ماں‘ بہن کا رتبہ بھی گلیوں کی خاک سے کم تر ہے۔ حوا کی ان بیٹیوں کی کوئی عزت نہیں۔ وہ تو مٹی کا ایک کھلونا ہیں یا گوشت کا بے جان لوتھڑا‘ جن کا ذکر حقارت اور حصول عیش کے سوا اور کسی انداز میں نہیں ہوتا۔ یہ کم نصیب گھروں‘ کھیتوں‘ ملوں اور فیکٹریوں کو آباد کرتی ہیں۔ ان کی محنت اور مشقت صحرا و دمن سے کوچہ بازار تک ہر جگہ پھول اگاتی ہے لیکن ایک روز کوئی چودھری‘ کوئی ملک یا کوئی بدمعاش ان کی عزت کو پامال کرکے انھیں دیدۂ عبرت نگاہ بنا دیتا ہے۔ نہ ان کا بچپن اپنا‘ نہ جوانی اپنی‘ نہ بڑھاپا اپنا‘ قطرہ قطرہ‘قریہ قریہ ان کی روح اور جسم نیلام ہوتا ہے۔ یہ نیلامی مکمل ہوتی ہے تو یہ مٹی اوڑھ کے ہمیشہ کے لیے سو رہتی ہے۔
مولو مصلی اور اس کی ماں‘ بہنوں کی طرح اس کے بیٹے کی کہانی بھی اتنی ہی دردناک ہے۔ اس کے مقدر میں بھی بڑا ہوکے مولو مصلی بننا ہی لکھا ہے۔ وہ کولہو کا بیل ہے جو کبھی چودھری نہیں بن سکتا۔ مولو کے بیٹے نے ایک بار اپنی ماں سے پوچھا ”اماں گاؤں کا چودھری مر جائے تو کون چودھری بنے گا؟ اس کا بیٹا‘ ماں نے جواب دیا۔ وہ بھی مر جائے تو…… پھر اس کا بیٹا۔ وہ بھی مرجائے تو……پھر اس کا بیٹا۔ وہ بھی مرجائے تو ……پھر اس کا بیٹا۔ ماں جو اپنے لختِ جگر کے ذہن میں کلبلاتے ہوئے سوالوں تک دسترس پا چکی تھی تکرار سے تنگ آکے کہنے لگی ”بیٹا گاؤں کا گاؤں مرجائے لیکن تو چودھری نہیں بن سکتا۔ تمھیں یقین کیوں نہیں آتا کہ کوئی کمی‘ کوئی مصلی‘ کوئی چوہڑا‘ کوئی چمار اس مقام تک پہنچنے کے قابل نہیں“۔ دل گرفتہ ماں نے جو کہا وہ سچ ہے۔ وہاں پہنچنا تو دور کی بات وہ ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔ وہ مصلیوں کا چودھری بن کے بھی چودھریوں کا مصلی ہی رہے گا یا پھر اگر قسمت نے یاوری کی تو ان کی حویلی کا پہریدار بن کران کی حفاظت کے لیے اپنی جان دیدے گا‘ جنہوں نے اسے اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ گویا مولو مصلی اپنے اور اپنی اولاد پر مسلط اس ظالمانہ نظام کا محافظ بھی خود ہی ہے۔ اس نظام کی بنیادیں بھی اسی کے خون اور پسینے پہ استوار ہوتی ہیں۔ جب وہ ضرورت کے ہاتھوں اندھا ہوتا ہے تو کرائے کا سپاہی بن کے چودھریوں کی بندو ق اٹھا لیتا ہے اور پھر اس بندوق کی گولیاں جن سینوں میں پیوست ہوتی ہیں ان کا نام بھی مولو مصلی ہی ہوتا ہے۔چودھریوں کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ وہ مصلیوں سے چھینی ہوئی دولت کی حفاظت کے لیے بھی مصلی ہی رکھتے ہیں تاکہ کوئی سر پھرا پنا مال واپس لینے آئے تو اپنے ہی بھائی بندوں کی چلائی ہوئی گولی کا نشانہ بن جائے۔ استاد دامن نے مولو مصلی کی اسی بے نیازی کی طرف اشارہ کیا تھا
مال کسے دا تے رات نو ں جاگ جاگ
چوکیدار پئے ہُو کراں ماردے نیں
تہی دامن مولو مصلی کی ان” ہُوکروں“ میں کتنا درد ہے اس کا شعور کوئی مشکل کام نہیں۔
مولو مصلی‘ اس کی ماں‘ بہنیں اور اس کی اولاد وہ اجڑی ہوئی مخلوق ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔ جن کی کہیں شنوائی نہیں۔ نہ تھانہ‘ نہ کچہری‘ نہ اسمبلی‘ نہ سینٹ۔ ان کی فریاد کہیں نہیں پہنچتی۔ نہ زمین انھیں پناہ دیتی ہے نہ آسمان ان کا سایہ بنتا ہے۔ ان کے دامن میں پیوند ہی پیوند لگے ہیں۔نہ روٹی‘ نہ کپڑا‘ نہ مکان‘ نہ عزت‘ نہ آبرو‘ نہ اطمینان۔ جمہوریت اور مساوات کے دعوے داروں سے دنیا بھری پڑی ہے۔ یہ لوگ خلق ِ خداکی محبت میں صبح و شام آنسو بہاتے ہیں۔ تنی ہوئی گردنیں اور کلف لگے ہوئے پیراہن۔ اس ہجوم میں مولو مصلی سر جھکائے کسی مجرم کی طرح کھڑا ہے۔ وہ ترقی‘ خوشحالی
اور مساوات کے چرچے سن رہا ہے۔ تعلیم‘صحت‘ سڑکیں‘ پانی‘ بجلی‘ اکیسویں صدی ……لیکن اسے نہ سکول درکار ہیں‘ نہ ہسپتال‘ نہ موٹر گاڑیاں‘ نہ صاف پانی اور بجلی کے قمقمے۔ ان تما م باتوں سے بے نیاز وہ صرف یہ سوال پوچھتا ہے کہ کب تک پولیس اس کے گھر گھستی رہے گی۔ کب تک چودھری اسے حقارت آمیز لہجے میں مولو مصلی کہہ کے پکاریں گے۔ ظلم کا یہ نظام کس روز بدلے گا۔ اس کی تاریک زندگی میں انصاف کا سورج کب طلوع ہو گا لیکن مولو مصلی کو یہ حقیقت معلوم نہیں کہ غلام کو اس کا حق سوال سے نہیں بغاوت سے ملتا ہے۔ جس روز مولو مصلی کو معلوم ہو گیا کہ آزادی مانگی نہیں چھینی جاتی ہے وہ قیامت کا روز ہو گا۔لوگو! اس روز سے ڈرو۔ حق دار کو اس کا حق لوٹانے میں دیر نہ کرو۔ مولو مصلی کو اس کی پگڑی اور اس کی ماں‘ بہن کو ان کا آنچل واپس کر دو‘ وگرنہ وہ دن دور نہیں جب وہ خود تمہارے تخت و تاج روند ڈالے گا۔ اس روز خون کے چھینٹے اڑیں گے اور چوراہوں پہ گڑی صلیبوں پہ نازک بدن جھولتے نظر آئیں گے۔
یکم مئی کا ایک پیغام یہ بھی ہے۔