Naiki Ka Aik Lamha-نیکی کا ایک لمحہ
کب سورج نکل آئے کب بارش ہونے لگے۔ وہ بس ایک لمحہ ہی ہوتا ہے جس کے بعد سب بدل جاتا ہے۔
یہ بات مجھے مائکل ڈیوڈ نامی ایک سیاہ فام امریکی نے بتائی۔ مائکل ڈیوڈ مجھے واشنگٹن کے مشہور چرچ نیشنل کیتھڈرل کی سیڑھیوں پہ ملا۔ وہ اس روز وہاں لوگوں میں چاکلیٹ بانٹ رہا تھا۔ مجھے بھی اس نے کچھ چاکلیٹ دیں۔ میں نے اسے بتایا کہ میں قریب ہی واقع امیریکن یونی ورسٹی میں پڑھتا ہوں۔ اس نے مجھ سے ملنے کا وعدہ کرلیا اور کچھ دنوں بعد وہ واقعی یونی ورسٹی چلا آیا۔ ہماری دوستی ہونے لگی۔ وہ جب بھی کیتھڈرل آتا‘ مجھ سے ملنے یونی ورسٹی پہنچ جاتا۔ اس نے مجھے واشنگٹن شہر کی اندرونی کہانیاں بھی سنائیں‘ جرم‘ قتل و غارت اور نشہ۔ اس کی اپنی کہانی بھی ایسی ہی تھی لیکن اس کی زندگی میں ایک لمحہ ایسا آیا کہ اس کے بعد سب کچھ بدل گیا۔
اس کا کہنا تھا کہ یہ لمحہ ہر شخص کی زندگی میں آتا ہے لیکن لوگ اسے پہچان نہیں پاتے۔ مائکل کہنے لگا‘ یہ اس وقت کی بات ہے جب میں بدچلن‘ بدمعاش اور آوارہ تھا‘ بے کار‘ بے گھر‘ بے مقصد۔نشے میں دھت رہنااور جرم کرنا یہی میرا معمول تھا۔ وہ دسمبر کی ایک یخ بستہ رات تھی۔ میں بھوک کے عالم میں ادھر ادھر دھکے کھاتا شہر کے سب سے بڑے چرچ جا پہنچا کہ شاید کھانے کو کچھ مل جائے۔ میرے منہ سے شراب کی بو آرہی تھی۔ فادر نے اس حالت میں مجھے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ مجبوراً میں نے وہ رات چرچ کی سیڑھیوں پہ گزار دی۔ اس انکار نے مجھے بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کردیا۔ کیا مجھے خدا کے گھر میں بھی پناہ نہیں مل سکتی۔ صبح ہوئی تو میں نے فیصلہ کیا کہ اب میں کوئی جرم نہ کروں گا‘ کوئی گناہ نہ کروں گا۔ میں نے بھیک سے بھی تائب ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ مجھے لگا‘یہ بھی گناہ ہے۔ بس وہ ایک لمحہ جب فادر نے مجھے بے گانگی سے دیکھا اور میرے اندر تبدیلی کی خواہش پیدا ہوئی۔
میں وہاں سے اٹھا اور ایک کلینک چلا گیا۔ میری مضبوط قوت ارادی کام آئی اور میں نے نشے کی لعنت سے نجات پالی۔ نئی زندگی شروع کرنے کے لیے میں نے کئی جگہ نوکری کی درخواست دی۔ ایک روز ایک ہوٹل میں کام مل گیا‘ باقاعدہ تن خواہ‘ کھانا پینا۔ مجھے اور کیا چاہیے تھا۔اسی دوران ایک روز ایک بہت عجیب ساواقعہ ہوا۔ ہوٹل میں اس روز کوئی تقریب تھی لیکن مہمان بہت کم آئے۔ بہت سا کھانا بچ گیا۔ میرے منیجر کے لیے مشکل ہوگئی کہ وہ اس کھانے کا کیا کرے۔ اس نے مجھ سے کہا کہ کوئی حل بتاؤ۔ مجھے اپنے نشہ کرنے والے‘ بے گھر دوست یاد آنے لگے۔ میں نے کہا‘ میں یہ کھانا ایک گھنٹے میں ختم کرسکتا ہوں۔ منیجر ہنسنے لگا لیکن جب میں نے اپنا آئیڈیا بتایا تو وہ راضی ہوگیا۔ اس نے مجھے ہوٹل کا ٹرک دیا اور میں نے سارا کھانا اس میں رکھوادیا۔ دو تین سو لوگوں کا کھانا تو ہوگا۔ میں شہرکے مختلف حصوں میں ٹرک بھگاتا رہا۔مجھے علم تھا کہ اس کھانے کے مستحق کہاں کہاں رہتے ہیں۔ تین تین چارچار لوگوں کا کھانا ایک ایک شخص کے حوالے کیا۔ میرے پرانے دوست‘ ان کے چہروں پہ کھلی ہوئی مسکراہٹ مجھے عجیب سی خوشی دے رہی تھی۔ میں نے ان کی تصویریں بھی لیں۔ واپس پہنچ کر یہ تصویریں میں نے منیجر کو دکھائیں تو وہ حیران رہ گیا۔ وہ ایک دردمند انسان تھا۔ اس نے یہ بات انتظامیہ کے دوسرے لوگوں سے کی اور سب نے فیصلہ کیا کہ بچے کھچے کھانے کو کوڑے میں پھینکنے کے بجائے اسی طرح استعمال میں لائیں گے۔
واشنگٹن میں اس طرح کے اور بھی بہت سے ہوٹل تھے۔دس ہوٹلوں نے اس کام میں شامل ہونے کی ہامی بھر لی۔ یوں بے گھر اور بے سہارا لوگوں کے لیے کھانے کا مستقل بندوبست ہو گیا۔ اس پورے پراجیکٹ کا نام
Dinner Party Michael’s رکھا گیا۔ گویا یہ کام میرے نام ہی سے منسوب ہوگیا۔ جو آدمی کل تک خود بھوکا سوتا تھا‘ اس کے نام سے سیکڑوں لوگ کھانا کھانے لگے۔ اب ہر روز رات کو واشنگٹن کے ہوٹلوں سے ٹرک نکلتے ہیں اور ان سیکڑوں لوگوں کو کھانا پہنچ جاتا ہے جو نشے کے عالم میں کھوئے رہتے تھے۔ کبھی میں بھی انھی جیسا تھا لیکن خداوند نے میری رہ نمائی کی اور مجھے راستہ مل گیا۔ اسی چرچ کی سیڑھیوں پر جہاں میں ساری رات ٹھٹھرتا رہا‘میں نے بے شمار لوگوں کو کھانا پیش کیا ہے۔ اسی پادری کے سامنے جس نے مجھے اپنانے سے انکار کردیا تھا۔فادر نے بے شک پناہ نہ دی لیکن خداوند نے پناہ دے دی۔ خداوند تو یہ کہتا ہے کہ جو گناہ گار ہیں‘ انھیں میرے قریب لاؤ کہ انھیں میری زیادہ ضرورت ہے۔ وہ یخ بستہ رات نہ ہوتی تو شاید میں ابھی تک بدچلن‘ بدمعاش اور آوارہ ہوتا‘ نشے میں دھت رہتا‘ وارداتیں کرتا۔ کسے خبر گناہ کی اندھی گلی میں کب راستہ مل جائے۔ اسی لیے تو کہتے ہیں کہ
“Every Saint has a past and every sinner has a future.”
کب سورج نکل آئے‘ کب بارش ہونے لگے۔ وہ بس ایک لمحہ ہی ہوتا ہے جس کے بعد یہ سب بدل جاتا ہے۔