17 May

Rashid Abad-راشد آباد

یہ کوئی باغ ہے یا پھر جنت الفردوس کاٹکڑا۔ وہ جو اقبال نے کہا
جہان تاز ہ کی افکار ِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
یہ جگہ سنگ و خشت بھی ہے اور افکارِ تازہ کا مسکن بھی۔
راشدآباد ایک چھوٹی سی بستی ہے‘ ٹنڈواللہ یار کے پاس۔ سندھ کی اس چھوٹی سی بستی میں کچھ بڑے بڑے طوفان چھپے ہیں۔ جب یہ طوفان اٹھیں گے تو ایک نئی دنیا تعمیر ہوگی‘ جہانِ تازہ۔ میں نے اس بستی کے بارے میں بہت عرصے سے سن رکھا تھا لیکن بدقسمتی آڑے آتی رہی اور میں وہاں نہ جاسکا۔ کاش میں کچھ دیر پہلے ہو آتا۔ نیکی کرنے میں دیر نہیں ہونی چاہیے۔ اس روز میں‘ نذیر تونیو اور میجر(ر) رفیق حسرت جب وہاں پہنچے تو کمانڈر شبیر احمد خان اور اقبال صاحب کو اپنا منتظر پایا۔ کچھ لوگ فرد ہیں کچھ تحر یک۔ کمانڈر شبیر ایک تحریک ہیں۔ سیلِ رواں۔ ایر فورس میں دیر تک جہاز اڑائے۔ پلٹنا‘ جھپٹنا‘ جھپٹ کر پلٹنا۔ بلندی کی لذت یوں ہی نہیں ملتی۔ ایر فورس سے رِٹائرمنٹ ملی تو ایک اور سفر شروع ہوا۔ ”جو کچھ ہمیں ملا کیا اس میں سے کچھ واپس نہیں کرنا“۔ کمانڈر شبیر نے اپنے دوستوں کو بلاکر یہ سوال پوچھا اورحیرت زدہ کر دیا۔ سب نے اپنی اپنی پنشن اورپراویڈنٹ فنڈ جمع کیے اور اس کا حساب کتاب اپنے دوست کمانڈر کو سونپ دیا۔ایثار اسی کا نام ہے۔ جہانِ تازہ کی بنیاد اسی طرح رکھی جاتی ہے۔
میر پور خاص اور ٹنڈو اللہ یار کے نواح میں سو ایکڑ زمین خریدی گئی۔ اس ملک میں بہت سے لوگ سو سو نہیں ہزارہا ایکڑ کے مالک ہیں لیکن ان میں کتنے ہیں جنھوں نے اپنے حصے کی کچھ زمین اللہ کو قرض میں دے دی ہو۔ یہ سب توفیق کی بات ہے لیکن توفیق بھی اسے ملتی ہے جس کے نصیب اچھے ہوں۔ مجھے کمانڈر شبیرکے نصیب پہ رشک آتا ہے۔ سوایکڑ کی بڑی خوب صورت تقسیم ہوئی۔ پچاس ایکڑ میں ایک سکول۔سرگودھین سپرٹ ٹرسٹ پبلک سکول اور بقیہ پچاس ایکڑ میں آنکھوں کا ہسپتال‘ تھیلے سیمیاکا مرکز‘ گونگے بہرے افراد کا ٹھکانہ‘ بوڑھے اور بے سہارا افراد کے لیے اولڈ ایج ہوم‘ فنی تعلیم کا بہترین مرکز اور سٹی زن فاؤنڈیشن کا ایک سکول۔
راشد آبادمیں ایک نہیں کئی شہر آباد ہیں۔ لیکن اس شہر کا اصل سرمایہ وہ تین ہزار بچے ہیں جو یہاں کے ٹی سی ایف اور ٹرسٹ سکول میں پڑھتے ہیں۔ ٹرسٹ سکول آکسفورڈ یا کیمبرج کی طرح کا ہی ایک خواب ہے۔ یہاں کے ہیڈ بوائے کا نام دھل راج ہے۔ لاڑکانہ کا رہنے والا یہ بچہ ایک مذہبی اقلیت سے تعلق رکھتا ہے اور پاکستان کا فخر ہے۔ یہ بچہ اخوت کے عالم گیر تصور کا نمایندہ بھی ہے۔ پُر شکوہ عمار ت میں ہنستے کھیلتے‘ علم حاصل کرتے ہوئے یہ بچے۔ جن کی چمک ہمیں دیر تک خیرہ کرتی رہی۔ یہ بچے اس بات کا اعلان ہیں کہ صبح دور نہیں۔ میرے ہم سفر‘ رفیق حسرت خود پہ قابو نہ پا سکے۔ پہلے تو حیرت سے اس بستی اور اس کے مکینوں کو دیکھتے رہے پھر جیب میں جو کچھ تھا نکال کر کمانڈر شبیر کے ہاتھ میں تھما دیا۔ گننے کا موقع ہی نہیں ملا۔ رسید آئی تو پتہ چلا ایک لاکھ تھے۔ نذیر تونیو کا کہنا تھا کہ یہ تو بہت کم ہیں‘جی چاہتا ہے کمانڈر شبیر کے قدموں میں زندگی کی ہر متاع ڈھیر کردی جائے۔
راشد آباد علم کا سرچشمہ ہے۔ صدق و صفا کا مرکز۔ وہ افق جہاں سے روشنی پھوٹتی ہے۔ جہاں لوگ نیکیوں کی فصل بوتے ہیں۔ یہاں کی زمین بہت سخت ہے لیکن پھر بھی وہ فصل بونے سے باز نہیں آتے۔ جس روز یہ فصل پکے گی اس روز تبدیلی آئے گی۔ معاشی‘ سماجی اور سیاسی تبدیلی اور پھر ایک نیا معاشرہ تعمیر ہوگا جس کی بنیاد انصاف پر رکھی جائے گی۔ کاش ایسے کچھ مرکز‘ اور بن جائیں۔ کچھ اور راشد آباد۔ ہماری فوج میں‘ سول سوسائٹی میں‘ پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر میں کتنے لوگ ہیں جن کی پنشن اورجن کے پراویڈنٹ فنڈ ان کی ضرورت سے بہت زیادہ ہیں۔ لیکن وہ لوگ کمانڈر شبیر نہیں بن پاتے۔ کاش کوئی بتائے کہ آگے بڑھنے کے لیے کمانڈر شبیر بننا پڑتا ہے۔ جب تک کمانڈر شبیر سامنے نہ آئے ہمارے مقدرکا ستارہ ڈگمگاتا رہے گا۔ ہم جہالت میں ڈوبے رہیں گے۔ پسماندگی ہماری پہچان رہے گی۔راشد آباد۔ یہ کوئی باغ ہے یا جنت الفردوس کا ٹکڑا۔ زندگی میں ایک بار یہاں جانا ہم پر فرض ہے۔ اگر اس قدر دیکھ لینا بھی کافی ہوگا۔ شاید ہم ایک فرض کی ادائیگی میں کام یاب ہو جائیں۔
www.sst.org.پک فرصت نہ ہوتو اس کی ویب سائیٹ