26 Sep

Rayyan Aur Cadet College Hasan Abdal-ریان اورکیڈٹ کالج حسن ابدال

گرمیوں کی چھٹیاں گذر گئیں۔ ان چھٹیوں میں کچھ بچوں نے سیر و تفریح کی اور کچھ کام میں مشغول رہے۔ وہ بچے جو کام کرتے رہے ان میں سے چار سو بچے ہمارے پاس بھی پہنچے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ کچھ سیکھنا چاہتے ہیں۔ جاننا چاہتے ہیں کہ غربت کیا ہے اوراس کا خاتمہ کس طرح ممکن ہے۔ ایچی سن کالج‘ لاہور گرائمر سکول‘ بیکن ہاؤس‘ سٹی سکول‘ کیڈٹ کالج حسن ابدال……یہ چار سو بچے کئی ہفتے اخوت سے منسلک رہے۔ رخصت ہوئے تو ان کی کایا پلٹ چکی تھی‘ خدمت کے جذبہ سے سرشار‘ ذات کے حصار سے بلند۔ ایک نیاعزم ان کے ہمرکاب تھا۔ ان میں سے اکثر بچوں نے شکریہ کے خط بھی بھیجے۔یہ سارے خط درد بھرے جذبوں کا بیان تھے۔ ہر لفظ امید‘ ہر سطر خوشبو۔ سب سے خوب صورت خط ریان کا تھا۔ انگریز ی میں لکھے اس خط کا جواب میں نے اردو میں بھیجا لیکن یہ جواب صرف ریان کے لیے نہیں ہر اس بچے کے لیے ہے جس نے اخوت کے ساتھ انٹرن شپ کی۔ خاص طور پر کیڈٹ کالج حسن ابدال کے ان تین سو بچوں کے لیے جو پورے پاکستان میں پھیلے ہوئے تھے۔یہ خط ان اساتذہ اور والدین کے لیے بھی ہے جنہوں نے اپنے بچوں کو سخت موسم کے باوجود دور دراز بھیجنے کا فیصلہ کیا۔
بے حد عزیز ریان حسن!
السلام علیکم
تمھارے بابا نے مجھے تمھارا خط دیا۔ میں آج کتنا خوش ہوں کہ اتنے دنوں بعد ایک اچھا خط پڑھنے کو ملا۔ تم نے جس سادہ مگر دل نشین انداز میں اپنی انٹرن شپ کا تجربہ بیان کیا وہ کسی بھی اچھے مصنف کی تحریر سے کم نہیں۔ تمھاری باتیں دل سے نکلیں اور دل پہ اثر کرگئیں۔تم کس قدر جلد اس نتیجے پہ پہنچ گئے کہ زندگی صرف وہی نہیں جو امیر اور آسودہ حال لوگ گذارتے ہیں۔ بیماری‘ جہالت‘ بھوک‘ تنہائی‘ معذوری‘ ٹوٹے پھوٹے گھر‘ گندگی کے ڈھیراور تعفن‘ ٹوٹی ہوئی امیدیں اور بکھرے ہوئے خواب……یہ سب بھی زندگی ہی کی تصویر ہے۔ تم نے یہ تصویردیکھی اور اداس ہونے لگے۔ مجھے یقین ہے تم یہ تصویر مٹا کر ایک نئی تصویر بناؤ گے۔ ایک ایسی تصویر جس میں یہ ساری محرومیاں نہ ہوں۔ یہ سارے دکھ نہ ہوں۔جہاں ہر شخص کے سرپہ چھت ہو‘ ہر بیمار کو دوا ملے‘جہاں ہر بچہ سکول جائے‘ ہر بچے کو اچھے کپڑے ملیں‘ اس کے پاس کھلونے ہوں‘وہ تمھاری طرح خوب صورت خواب دیکھے اور پھر ایک دن وہ خواب پورے ہوجائیں۔ تم ایک ایسے معاشرے کی تصویر بناؤ گے جہاں ہر طرف صفائی ہو‘ نظم و ضبط ہو‘ ٹریفک سلیقے سے چلے‘ لوگ جھگڑا نہ کریں۔جہاں ایک دوسرے کی مدد کا جذبہ عام ہو۔ لوگ قانون پہ عمل کریں۔ کوئی گرپڑے تو کوئی تھامنے والا ہو‘ کوئی رودے تو کوئی آنسو پونچھنے والا ہو۔ رنگ‘ نسل‘برادری‘ مذہب‘سیاست‘ ذات پات……ان سب باتوں سے بلند ہو کر لوگ صرف انسان سے محبت کریں۔ ہاں! ہمارا مقصد تمھیں یہ بتانا تھا کہ ہمیں مل جل کر ایک ایسا معاشرہ بنانا ہے جس میں ہر شخص کو عزت اور آبرو سے زندہ رہنے کا حق حاصل ہو۔ جہاں گورے کو کالے پر اور امیر کو غریب پر کوئی فوقیت نہ ہو‘ جہاں ایک عورت تنِ تنہا گلگت بلتستان کی بلندیوں سے سفر شروع کرے اور بحیرۂ عرب کے ساحل تک جا پہنچے اور اس سفر میں کوئی اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے والا نہ ہو۔
ریان! کیا تم یقین کرو گے کہ تمھارا خط پڑھ کے میری آنکھیں بھیگنے لگیں۔ مجھے لگا جو کام میں اور میرے دوست نہیں کر سکے تم اور تمھارے دوست ضرور کروگے۔ تم نے جس محنت سے اخوت میں یہ دن گذارے ان کا ہر لمحہ گواہی دیتا ہے کہ ایسا ہی ہوگا۔ تمھارے اماں‘ بابا کتنے اچھے ہیں جنہوں نے ابھی سے درد کا چھوٹا سا دیا تمھارے دل میں روشن کردیا۔ یہ دیا تمھارے ان دوستوں کے دل میں بھی روشن ہے جو ان خستہ حال بستیوں میں زندگی کی حقیقت ڈھونڈتے رہے۔ غریبوں کو بتاتے رہے کہ ہم بھی تمھارے ساتھ ہیں۔ تم ان سے ملو تو کہنا کہ وہی بچہ کام یاب ہوگا جو اس دیئے کی لو کو روشن رکھے گا۔جو ان خوابوں کی حفاظت کرے گا۔
تمھار ا سکول کھل چکا ہوگا۔ تم پھر سے پڑھنے میں مصروف ہوگے۔ مجھے یقین ہے تم دل لگا کے پڑھو گے اور ان بچوں کو بھی یاد رکھو گے جو تمھاری طرح خوش قسمت نہیں۔ جو سکول نہیں جاتے۔ جو پنکچر لگاتے ہیں‘ چائے کے کسی سٹال پہ کام کرتے ہیں اور کھانا کھائے بغیر ریلوے سٹیشن پہ سو جاتے ہیں۔ ماں‘ باپ‘ بہن‘ بھائی اور دوست۔وہ ہر محبت سے محروم ہیں۔ تمھیں ایسے بچوں کو ایک دن سکول لے کے آنا ہے۔ یہ تمھارا وعدہ ہے۔ مجھ سے بھی اور خود اپنے آپ سے بھی۔ اگر تم یہ وعدہ بھول گئے تو ہم غربت کے اندھیروں میں بھٹکتے رہیں گے۔ مجھے یہ بھی یقین ہے کہ تم مواخات کی کہانی یاد رکھو گے۔اب تم اور تمھارے دوست ہی اخوت ہو۔
ایچی سن کالج‘ گورنمنٹ کالج‘ لاہور گرائمر سکول‘ بیکن ہاؤس‘ سٹی سکول‘ کیڈٹ کالج حسن ابدال……ہماری عظمت کا سورج کسی نہ کسی افق سے تو ضرور طلوع ہو گا۔