03 Apr

Siasustdan Ya Mudabar-سیاستدان یا مدبر

” میں عظیم فاتح ہوں۔میری رگوں میں بہادروں کا خون دوڑ رہا ہے‘ میں نے دوبار آمریت کا کامیابی سے مقابلہ کیا‘ تیسرے معرکے میں موت کے گھاٹ اتارے جانے کا حکم پا چکا ہو ں لیکن زندگی اور موت کا فیصلہ انسان کے ہاتھ میں نہیں‘تاریخ کے پاس ہے……اگر مجھے قتل کیا جاتا ہے تو میں ہمیشہ موسم بہار میں کھلتے ہوئے پھولوں میں ملوں گا۔ان کی خوشبو اور مہک میں“۔ان خوبصورت الفاظ کے خالق کا نام ذوالفقار علی بھٹوہے۔ ہماری تاریخ کا ایک مشکل‘ تہہ در تہہ اور حساس کردار۔ پاکستان کو اب تک جتنے رہنما ملے ان میں سب سے منفرد‘سیماب صفت اور پرجوش۔ ایک انقلابی جس نے لوگوں کے تخیل کو اپنی گرفت میں لے لیا۔اس کی موت نے اس کی شخصیت کو اور بھی دل آویزبنا دیا۔ اس کے مداح آج بھی اس کی محبت میں اسیر ہیں۔ ان کے خیال میں موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس نے زندگی کوخوبصورت کر دیا۔ ان کے خیال میں وہ مر کر بھی زندہ ہے۔یہ لالہ و گل‘ یہ خوشبو۔ ان میں اس کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔
اس کے مخالف ان میں سے کسی بات پر متفق نہیں۔ ان کے نزدیک وہ ایک منہ زور آمر اور بے رحم جاگیر دار تھا۔ انقلاب کی باتیں محض ذاتی نمود و نمائش کے لئے تھیں۔ غریبوں سے ہمدردی اور جمہوریت سے محبت یہ سب خالی نعرے تھے۔اپنی ذات کی محبت میں گھرا وہ شخص محض ایک سراب تھا۔ اس کا جو انجام ہوا وہ اسی کا مستحق تھا۔ یہ آرا کس قدر مختلف کس قدر متضاد ہیں۔ شاید اس لئے کہ بڑے لوگ بڑے تضاد کے حامل ہوتے ہیں۔ وہ جہاں متاثر کرتے ہیں وہیں موردِ الزام بھی ٹھہرتے ہیں۔محبت اور نفرت۔یہ دونوں جذبے ان کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ ان کی شخصیت کو درست تناظر میں دیکھنے کے لیے بڑا معروضی انداز درکار ہے۔ مکمل غیر جانب داری۔ شاید وہ وقت ابھی دور ہے جب ہمارا مورخ ذوالفقار علی بھٹو جیسے لوگوں کے اصل مقام کا تعین کرنے کے قابل ہو گا۔
اس تضاد کے باوجود اس شخص کا نام ہماری تاریخ کا ایک رومان پرور باب ہے۔اس کا نام آتے ہی رگ و پے میں ایک بجلی سی کوند جاتی ہے۔ لیڈر شپ کی ان گنت جہتوں کا امین۔ سیاست کے میدان میں اس نے ایسی روایات کو جنم دیا جن کی پیروی کوئی بڑے سے بڑا سیاست دان بھی نہیں کر سکا۔ اس نے سیاست کے مزاج کو نیا آہنگ بخش دیا اور یہ ڈرائنگ روم سے نکل کر گلی کوچوں تک پہنچ گئی۔ آج کے سیاست دان کو ذوالفقار علی بھٹو سے بہت کچھ سیکھنا پڑے گا۔ اس کی کامیابی میں جتنے سبق پوشیدہ ہیں اس سے کہیں زیادہ سبق اس کی ناکامی میں پنہاں ہیں۔اس کی خوبیوں اور خامیوں سے قطع نظر دیکھنایہ ہے کہ اس کا نظریہ سیاست کیا تھا۔ کیا اس میں اس عہد کے لئے کوئی پیغام چھپا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کا کہنا تھا کہ اچھا سیاست دان بننے کے لئے ذہانت‘ متانت اور حاضر جوابی کے ساتھ گفت گو کا فن اور تاریخ کا شعور بھی ضروری ہے۔ اچھے سیاست دان کو عوام کے جذبات کا بھی پتا ہونا چاہئے۔اسے لوگوں میں گھل مل جانا چاہئے۔ وہ جب لوگوں سے مخاطب ہو کے یہ کہتا کہ میں ”بت ہوں تم آواز ہو“ تو اسی حقیت کی طرف اشارہ کرتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ”لیڈر کوپتہ ہونا چاہیے کہ غربت کیا ہے اورمجبور اور مظلوم کے آنسو کیسے پونچھے جاتے ہیں۔لیڈر اگر درد اور مسرت دونوں کا عرفان نہیں رکھتا تو وقت ضائع کررہا ہے۔ اسے ماضی‘ حال اور مستقبل کا پورا پورا ادراک ہونا چاہیے۔ لیڈر ماضی کے بھنور سے مستقبل کی طرف سفر کرتا ہے۔ دیانت‘ صداقت‘ عزم اور یقین اس کے ترکش کے اہم تیر ہیں۔ اس میں اتنی جرات ہونی چاہیئے کہ وہ کسی معاملے پر عوام کے سامنے ”نہیں“ کہہ سکے جب کہ وہ جانتا ہو کہ اس کی ”نہیں“ فی الحال قابل قبول نہیں“۔ سیاست ایک بڑا فن ہے۔ ہزاروں برس سے لوگ اس راز کو سمجھنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔سیاست میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو کتابوں میں نہیں لکھی گئیں۔ سیاست دان کو خود فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کہاں تحمل کا مظاہرہ کرنا ہے اور کہاں خطرہ مول لینا ہے۔کہاں اپنی بات پہ اڑناہے کہاں لچک کا مظاہرہ کرنا ہے۔ اختلاف ِ رائے کا سامنا کیسے کرنا ہے اور اتفاق ِ رائے تک کیسے پہنچنا ہے۔
یہ اور اس طرح کی بہت سے اور باتیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے مخالف شاید ان الفاظ کو بھی سراب سمجھیں لیکن سمجھنے والوں کے لئے ان میں ایک دنیا پوشیدہ ہے۔سیاستدان(Politician) اور مدبر (Statesman) کا فرق بتاتے ہوئے کسی نے کہا کہ سیاست دان اگلے الیکشن کے بارے میں سوچتا ہے اور مدبر اگلی نسل کے بارے میں۔آج کے سیاسی منظر نامہ میں کتنے سیاست دان ہیں اور کتنے مدبر اس کا فیصلہ کرنا مشکل نہیں۔ قیام ِ پاکستان کے پہلے چند سال چھوڑ دیں‘ فیصلہ کرنا اور بھی آسان ہو جائے گا۔ بھٹو نہ مدبر تھا اور نہ فرہاد لیکن پھر بھی ہمیں اپنی مختصر تاریخ میں ایسا کوئی شخص نہیں ملا جو موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈل کر یہ کہہ سکے کہ زندگی اور موت کا فیصلہ انسان کے ہاتھ میں نہیں تاریخ کے ہاتھ میں ہے……
ہم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکن
اب شہر میں تیرے کوئی ہم سا بھی کہاں ہے