13 Feb

Sirf Aik Shama-صرف ایک شمع

سوشل میڈیا واقعی ایک انقلاب ہے۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ بھکر بار کے دوست محمد کی کہانی یوں زبانِ زدِ عام ہوگی۔ چند ہی روز میں سوشل میڈیا نے یہ کرشمہ بھی کر دکھایا۔ سیکڑوں لوگوں نے اس کہانی پہ Comment دیئے اور سیکڑوں لوگوں نے اسے Share کیا۔ بہت سے آنسو‘ بہت سی داد‘ بہت سوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اپنے حصے کی شمع ضرور روشن کریں گے۔ ”موچی ہونا جرم نہیں“۔ہاں‘ دوست محمد کے بچے بھی ایک دن ترقی کی منزل کو چھوئیں گے۔ مواصلاتی لہروں کے ذریعے یہ کالم امریکا کی مشہور ریاست ورجینیاکے ایک مکین‘ ڈاکٹر فلک شیر سیال تک جا پہنچا۔
بھر آئے پھول کے آنسو پیام ِ شبنم سے
کلی کا ننھا سادل خون ہو گیا غم سے
فلک شیر کے دل پہ دستک ہوئی اور کہیں دور بکھرے ہوئے ماضی کے ورق کھلنے لگے۔ ڈاکٹر فلک شیر نے اپنے خط میں لکھا ”دوست محمد کی یہ کہانی پورے پاکستان کی کہانی ہے۔ وہ سرگودھا کے ایک قصبہ بکھربار کا موچی ہے اور میں ضلع بھکر کے ایک دور دراز گاؤں ڈھنگانہ کے ایک چرواہے کا بیٹا۔ ڈھنگانہ برس ہا برس سے میرے بزرگوں کا ٹھکانہ رہا۔ لاہور سے ایک سو پچھتر میل دور‘ جھنگ بھکر شاہراہ کے شمال میں لق ودق صحرا۔ کبھی کبھار بارش ہو تو سبزا اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ درخت کبھی تھے اب نہیں ہیں۔ حکومت نے ان شجر ہائے سایہ دار پہ توجہ نہ دی۔ لوگوں کو بھی ان کی قدر کا اندازہ نہ تھا۔ کٹ کر ایندھن بنتے رہے اب کڑی دھوپ میں کوئی سایہ بھی نہیں۔ میں بہت سال پہلے اسی گاؤں میں پیدا ہوا۔ ایک ایسے خاندان میں جہاں لوگ بھیڑیں چراتے تھے۔ عورتیں‘ بچے‘ بڑے اور بوڑھے۔ کبھی کبھار کچھ زمین کاشت کرنے کو مل جاتی تو کھیتی باڑی کرنے لگتے۔غربت ہی اوڑھنا بچھونا تھا۔ میری دادی ایک مہربان عورت تھی۔ میں چند سال کا ہوا تو یہ سوچ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے کہ میری قسمت میں بھی بھیڑیں چرانا لکھا ہے۔ تپتی سلگتی ریت‘ نہ کوئی سایہئ گل اور نہ کوئی ابرِ بہار ……ننگے پاؤں ایک معصوم بچہ کہاں تک چلے گا۔دادی نے مجھے سکول میں داخل کروادیا۔ سب حیران و پریشان۔ یہ پہلا واقعہ تھا کہ ہمارے خاندان میں کوئی سکول داخل ہونے کے لیے پہنچا۔ اعتراض تو بہت ہوئے لیکن مہربان دادی سینہ سپر رہی۔ میں اس کی پناہ میں تھا۔ نجانے اس نے یہ حوصلہ کہاں سے لیا۔ پورا کا پورا خاندان اس کے سامنے سرنگوں ہو گیا اور وہاں سے ایک نئی کہانی شروع ہوئی۔
سکول ٹوٹا پھوٹا تھا لیکن مجھے اچھا لگنے لگا۔ دوست‘ استاد اور کتابیں۔ مجھے ایک نئی دنیا مل گئی۔ پرائمری‘ مڈل‘ میٹرک‘ ایف ایس سی۔ہر نیا سنگِ میل مجھے آگے بڑھنے کا حوصلہ دے جاتا۔یہ سب آسان نہ تھا لیکن دادی کے خواب میں نجانے کیا طاقت تھی کہ زنجیریں ٹوٹتی گئیں‘ راستے کھلتے گئے۔ مجھے یوں لگا جیسے خدا نے میرا ہاتھ تھام لیا ہو۔ 1970 میں میں نے زرعی انجینئرنگ میں بیچلر کی ڈگری لے لی۔ یہ ایک ناقابلِ یقین بات تھی۔ ایک غریب چرواہے کا بیٹا اور انجینئر۔لیکن خدا کا فیصلہ تھا کہ وہ دادی کے خواب کی لاج رکھے گا۔بیچلر کے بعد میں نے کچھ عرصہ نوکری کی‘ پیسے جمع کیے اور ماسٹرز کے لیے تھائی لینڈ جاپہنچا اور پھر ایک روز وہاں سے ریاست ہائے متحدہ امریکا چلا آیا۔ 1978 میں میں پی ایچ ڈی کرچکا تھا۔ پی ایچ ڈی کے بعد میں نے ایک لمحہ پیچھے مڑ کردیکھا۔دادی کی ڈبڈباتی ہوئی آنکھیں اور کچھ خواب۔ مجھے ابھی اورآگے جانا تھا۔ میں پھر چل پڑااور یوں چالیس برس گذر گئے۔ ان گنت سنگِ میل۔ کام یابی ہی کام یابی۔ ایک چرواہے کے سینے پہ اتنے تمغے سجے کہ لوگوں کی آنکھیں خیرہ ہونے لگیں۔ اسی دوران میں کئی بار وطن آیا۔ بھکر کا وہ دور دراز گاؤں ڈھنگانہ جہاں ایک عورت نے کبھی اپنے پوتے کو سکول بھیجا تھا۔ کتنی عظیم تھی وہ عورت جس نے اتنے لوگوں سے بغاوت کی اور پھر علم کی طاقت مجھے کشاں کشاں لیے پھرتی رہی۔ اس سارے سفر میں میں اپنے گھر اور گاؤں کو نہیں بھولا۔ بھول بھی کیسے سکتا تھا۔ میں نے اس سکول کو نئی عمارت بنا کردی جس کے ٹوٹے پھوٹے درودیوار اور جس کی مٹی میں بیٹھ کر میں لفظوں کے موتی چنا کرتا تھا۔ میں نے اپنے گاؤں کی ترقی کے لیے ایک ادارہ بھی بنایا جس کے تین مقاصد ہیں ……ہر بچہ سکول جائے‘ فنی تعلیم حاصل کرے اور اتنے درخت لگائے کہ یہ خطہ گل و گلزار ہونے لگے۔ میں نے ان ہرے بھرے کھیتوں کو صحرا بنتے ہوئے دیکھاہے۔ میں اس صحرا کو پھر سے گلستان بنانا چاہتا ہوں۔ اس ادارے نے اس علاقے کے لیے اور بھی بہت سے کام کیے لیکن یہ سب‘ کچھ بھی نہیں۔ کتنے فلک شیر ہیں جو آج بھی بھیڑیں چراتے ہیں۔ صحرا کے طویل راستے اور عمر بھر کی آبلہ پائی……ہر ماں اور ہر دادی خواب دیکھتی ہے لیکن ہر خواب کہاں پورا ہوتا ہے۔
آپ نے بکھر بار کے موچی کی کہانی سنائی۔ٹوانوں‘ میکنوں اور مہروں میں گھرا دوست محمد! مجھے لگا یہ میری ہی کہانی ہے۔ بکھر بار اور ڈھنگانہ صرف دو گاؤں نہیں۔ پاکستان کا ہر گاؤں بکھر بار اور ڈھنگانہ ہے۔ خواب تو خواب ہیں خواہ وہ دوست محمد موچی کے ہوں‘کسی بوڑھی دادی کے یا پھر اہل ِ اقتدار کے“۔
ڈاکٹر فلک شیر کی Email ختم ہوئی لیکن میں نے اسے کئی بار پڑھا۔ اے صاحبان ِفہم و ذکا‘اے اربابِ مہر و وفا! کچھ تو کرو۔ اس ملک میں دو کروڑ چالیس لاکھ فلک شیر ہیں جو سکول نہیں جاتے۔ کوئی تو ہو جو کسی ایک فلک شیر کا ہاتھ تھام لے اور اسے ڈاکٹر فلک شیر سیال بنادے۔ افسوس! اگر ہم اپنے حصہ کی ایک شمع بھی روشن نہ کرسکے۔ صرف ایک شمع……