امجدثاقب لوگوں کی مدد کرتا ہے مگر اسے امداد خیرات اور بھیک کے تاثر سے بچانا چاہتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ لوگ مجھ سے قرض لے جائیں ۔ مجھے واپس کردیں مگر اس سے اپنی زندگی کو واقعی زندگی بنائیں۔ اسے قرض واپس مل جاتا ہے اور لوگوں کو زندگی کی اصل کیفیت کا ہنر بھی مل جاتا ہے۔امجد ثاقب کا کریڈٹ ہے کہ اس نے قرض کو نیکی بنا دیا ہے اور قرضہ لینے والوں میں یہ جذبہ بھر دیا ہے کہ وہ اس نیکی کو پھیلاتے رہیں۔
ڈاکٹر امجد ثاقب نے بارہ سال میں عملی طور پر یہ ثابت کردیا ہے کہ اگر حکومت ‘ مخیر حضرات اور بین الاقوامی ادارے چاہیں تو اخوت کے ماڈل پر عمل کرکے بتدریج غربت میں کمی لاسکتے ہیں۔
جب تک ہمارے درمیان امجد ثاقب جیسے افراد موجود ہیں ہم اپنا سر اٹھا کر جی سکتے ہیں ‘ تب تک ہم دنیا کی سب سے بری قوم نہیں۔
جب تک اخوت جیسے ادارے قائم ہیں اور امجد ثاقب جیسے لوگ برسرعمل ہیں ‘ یہ اس بات کا اعلان ہے کہ خدا اس ملک کے مستقبل سے مایوس نہیں ہوا۔
ڈاکٹر امجدثاقب ایک لازوال کردار اور بامقصد خدمتِ خلق کا جذبہ رکھنے والوں کے لیے ایک رول ماڈل ہیں۔
کتنے اعزاز کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں اپنا فضل بانٹنے کے لیے ڈاکٹر امجد ثاقب کو منتخب کیا۔
ایک کہکشاں ہے جو ڈاکٹر امجد ثاقب نے روشن کردی ہے۔ ایک نور کا ہالہ ہے جس نے زمان و مکان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ایک امید ہے جو روشنی کا مینار بن کر افق تا افق پھیل گئی ہے۔
ڈاکٹرا مجد ثاقب صوفی نہیں لیکن اس نے صوفیوں والا کام کرڈالا ۔ اخوت کی جانب نظر اٹھا کردیکھے ‘ آنکھیں خیرہ ہو جائیں گی۔
ڈاکٹر محمد امجد ثاقب ایک خیال کا نام ہے۔ خیال ڈھل کر نیا بنا اور اس کا نام قدرت نے ازل سے ہی ’’اخوت ‘‘ رکھ دیا تھا۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کی ذات کا اصل اب اخوت ہے ۔ یہ اخوت مواخات سے ہے اور امجد ثاقب کو اس کیفیت سے محبت ہے۔
امجد ثاقب صرف خواب نہیں دیکھتا ان کی تعبیر تک پہنچنے کا فن بھی جانتا ہے۔ڈاکٹر امجد ثاقب نے اپنی سانسیں دوسروں کے لیے وقف کرکے ایک ایسے سسٹم کو آکسیجن فراہم کی ہے جس کے تحت انسانوں میں اپنی مدد آپ کا جذبہ ایک بار پھر سے جیتا جاگتا ہوا محسوس ہونے لگا ہے۔
ڈاکٹر امجد ثاقب نے صرف خلوص نیت اور جہدِ مسلسل سے غریبوں کو بلا ضمانت اور بلاسود قرضے دینے اور اس سلسلہ کو کام یابی سے چلانے کا معجزہ کردکھایا ہے۔
ڈاکٹر امجد ثاقب نے مسجدوں کی چٹائیوں پر بیٹھ کر دوسروں کے لیے عملی طور پر کچھ کر گزرنے کا چارہ کیا۔وہ بیمار‘ بے بس‘ لاچار ‘ دکھی انسانیت اور معاشرے کے کچلے افراد کی دستگیری کے لیے ان کی عزت نفس مجروح کیے بغیر انھیں سہارا دیتے ہیں تاکہ وہ بھی زندگی کی دوڑ میں باعزت طور پر شریک ہوسکیں۔