10 May

Tharparkar Keliya Dua-تھرپارکر کے لیے دعا

اے خدا! تھر کو چشموں کی ٹھنڈک دے‘ ابرِ بہار کا سایہ دے۔ علم کا نور دے۔
ضلع تھر پارکر۔ سندھ کا اہم حصہ ہے جس کی سرحدیں بھار ت کی سرزمین سے ملتی ہیں۔ مٹھی نامی شہرتھر کا صدر مقام ہے۔ضلع بھر کی تیرہ لاکھ کے قریب آبادی……غربت اور افلاس کی منہ بولتی تصویر…… نہ بجلی‘ نہ پانی‘ نہ گیس‘ نہ سڑک‘ نہ سواری‘ سکول کہیں کہیں‘ ہسپتال دور دراز۔عورتیں علی الصبح گھڑے سروں پہ رکھے کئی میل دو ر محض پانی لینے کے لیے نکلتی ہیں۔ بارش کے دنوں میں تالاب بھرنا شروع ہوتے ہیں اور پھر سال بھر وہیں سے پانی ملتا ہے۔ کبھی کبھار انسان بھی وہیں سے پانی پیتے ہیں اور جان ور بھی۔ ایک ایک کمرے کے شٹل کاک گھر جہاں پانچ پانچ‘ چھے چھے افراد رہتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ لوگ اپنی مٹی سے محبت کرتے ہیں۔ سچ بولتے ہیں۔لڑائی جھگڑا نہیں کرتے۔ مل جل کررہتے ہیں۔ یہاں جرم نہ ہونے کو ہے۔ تعصب کا نشان تک نہیں۔ غربت نے انھیں یکجا کردیا۔ سارے اختلافات مٹا دیے۔ نہ کوئی محمود ہے نہ کوئی ایاز…… اگر مساوات اور برابری ہو تو غربت تنگ نہیں کرتی۔ بلتستان پاکستان کا سرد ترین ضلع ہے اور تھر پارکر گرم ترین۔ دونوں اضلاع غربت اور پسماندگی میں سرِ فہرست ہیں۔ لیکن دونوں پُرامن اور پُرسکون۔ جس روز سڑک بن گئی‘ ترقی آگئی اور خوش حالی دستک دینے لگی تو شاید امن مٹ جائے۔ مٹھی اور تھر پارکر میں ان دنوں قحط کا سماں ہے۔ گذشتہ سال بارشیں نہ ہونے سے تالاب خالی رہ گئے۔ پانی ختم ہوا تو زندگی دو بھر ہونے لگی۔ بچے‘بوڑھے‘ نوجوان اور پھر جان ور۔سب پیاس سے بِلک رہے ہیں۔ پانی اتنا کم ہے کہ پرندوں کی چونچیں بھی بھیگ نہیں پاتیں۔ صحراؤں میں اٹھتی ہوئی یہ پکار شہر تک پہنچی اور لوگ جوق در جوق مدد کو لپکنے لگے۔ کچھ مدد کے لیے اورکچھ محض تماشا دیکھنے کے لیے۔ آنکھ کو تو منظر چاہیے۔ منظر‘ خواہ وہ کسی جاں بہ لب کا ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن مدد کے نام پر لوگوں کو بھکاری بنانا جرم سے کم نہیں۔ عزتِ نفس پہ لکیرپڑ جاتی ہے۔ شور مت کرو‘ قطار بناؤ اور ایک ایک کرکے آؤ۔آٹے کا تھیلا‘ کچھ گھی‘ کچھ شکر۔یہ سب ملے گا۔ افسوس! ہم کیوں نہیں سوچتے کہ لوگوں کو خیرات نہیں تعاون درکار ہے۔ میں تھر میں بیسیوں لوگوں سے ملا۔ میرے ہم راہ یونی ورسٹی آف سنٹرل پنجاب کے رضا کار طالب علم بھی تھے۔لوگوں کی زبان پہ ایک ہی پیغام تھا۔”اگر مدد کرنا ہے تو ہمار ے ساتھ مل کر کام کریں۔ تالابوں کی کھدائی میں ہماری محنت شامل نہ ہوئی تو ملکیت کا احساس پیدا نہ ہوگا اور اگلے سال آپ کو یہ تالاب اور کنویں پھر سے کھودنا پڑیں گے“۔
”ہمیں سڑک‘سکول اور ہسپتال بھی چاہیے۔لیکن سب سے اہم سکول ہے۔ علم۔ تھر میں تبدیلی علم سے آئے گی۔ جب ہمارے بچے سکول پہنچیں گے۔جب وہ کتاب کھولیں گے اور انھیں کوئی بتائے گا کہ دنیا میں سمندر بھی ہیں‘ نخلستان بھی اور سرسبز و شاداب وادیاں بھی……تبدیلی خبر سے آتی ہے اور خبر کتاب سے ملتی ہے۔ ہمارے بچوں کا رشتہ قلم اور کتاب سے جوڑدیں۔ہمیں بھیک نہیں چاہیے‘ ہمیں پھٹے پرانے کپڑے درکار نہیں‘ ہمیں یہ یقین درکار ہے کہ ہم بھی پاکستان ہیں۔ ہم بھی قومی وجود کا حصہ ہیں۔ ہم علم کے تیشے سے ہرکوہِ گراں کاٹ سکتے ہیں۔ اگر ریاست صرف چند سال تک چند ہزار باصلاحیت بچوں کو اپنا لے۔ کہیں اور لے جائے۔ اسلام آباد‘ کراچی‘ لاہور……یہ بچے کسی ایچی سن میں داخل ہوجائیں۔ کسی جی آئی کے‘ کسی آغا خاں‘ کسی لمز کا حصہ بن جائیں۔ ان کے دل میں علم اور جست جو کے چراغ جل اٹھیں۔ پھر آپ کی مدد کی ضرورت نہیں رہے گی۔ یہ بچے پانچ دس سال بعد خود ہی تھر کو بدل دیں گے۔ ہم جانتے ہیں کہ تقدیر بھیک سے نہیں‘ علم سے بدلتی ہے۔ تھر کے ریگزار کو علم کی کچھ بوندیں چاہیں۔ بس چند بوندیں‘ جل تھل تو خود ہی ہوجائے گا“۔
نذیر تونیو کو یہ باتیں مسحور کرتی رہیں۔ ہمیں بھی یہ باتیں اچھی لگیں۔ ڈاکٹر کھٹاؤ مل‘ مٹھی کا سادہ لوح دانش ور۔ جو کتابیں پڑھتا ہے اور خواب دیکھتا ہے۔ علم دوستی کے خواب‘ انسان سے محبت کے خواب۔ اس نے اپنے گھر بلایا تو گھر کا ہر فرد فرشِ راہ ہوگیا۔ یہ تپاک مٹھی کا خاصا ہے۔ یہاں ہر شخص تپاک سے ملتا ہے۔ لُو کے جھونکے اور قحط۔ اُڑتی ہوئی دُھول اور خشک سالی۔ یہ انھیں اور گداز بناتے ہیں۔ حافظ محمد جونیجو‘ نذر جوئیو اور ڈاکٹر سونو کنگرانی اور پھر تھر دیپ کے ظفر جونیجو……یہ سب ٹھنڈے میٹھے چشمے ہیں۔ لوگ بھی تو سیراب کرتے ہیں۔ ان سب کی زبان پہ ایک ہی دعا تھی۔ ”اے خدا! تھر کو چشموں کی ٹھنڈک دے‘ ابرِ بہار کا سایہ دے اور سب سے بڑھ کر علم کا نور دے“۔ کون ہے جو اس دعا میں ان کا ساتھ نہ دے………… اے خدا! تھر کو چشموں کی ٹھنڈک دے‘ ابرِ بہار کا سایہ دے۔ علم کا نور دے۔