26 Dec

Unmool Khaub-انمول خواب

ایک شخص کتنے بڑے خواب دیکھ سکتا ہے۔
کوئی یہ بات جاننا چاہے تو کراچی جاکر ڈاکٹر ٹیپو سلطان سے مل سکتا ہے۔ ان کے پاس ان کے والد‘ ابو ظفر اور والدہ ڈاکٹرعطیہ خاتون کی خوابوں بھری کہانی ہے۔ ابوظفراور عطیہ خاتون کی شادی پٹنہ میں ہوئی۔ پاکستان بنا تو وہ کراچی چلے آئے۔ تہی دست‘ تہی دامن۔ بس امید کا ایک دیا کہیں روشن تھا۔ ابوظفر سکول میں پڑھانے لگے لیکن انھیں کچھ اور کام بھی کرنا تھے۔ 1952 میں جب بڑے بیٹے ٹیپو سلطان نے سکول جانا شروع کیا تووالدہ عطیہ خاتون سوچنے لگیں کہ انھیں بھی تو پڑھنا چاہیے۔ عطیہ خاتون نے الف‘ ب سیکھی‘ گھر میں ہی میٹرک کیا اور پھر جب ٹیپو سلطان ڈو میڈیکل کالج کے آخری سال میں تھا تو والدہ کو بھی وہیں داخلہ مل گیا۔بہت جلد ماں بیٹے کے ہاتھ میں ایم بی بی ایس کی ڈگری تھی۔ ابوظفر اور عطیہ خاتون کے آٹھ بچے تھے۔ پانچ بیٹیاں اور تین بیٹے۔”یہ ڈاکٹر بن جائیں تو ان کی زندگی بدل جائے گی“۔ ابو ظفر نے صبح کی کسی گھڑی دعامانگی اور پھریہ آٹھوں کے آٹھوں ڈاکٹر بن گئے۔بچوں کی شادیوں کا موقعہ آیا تو میاں بیوی نے اک اور دعا مانگی۔”ہمارے دامادوں اور بہووں کوبھی ڈاکٹر ہی ہونا چاہیے“۔ یوں آٹھ بچوں کی شادیاں آٹھ اور ڈاکٹرز سے ہوگئیں۔یہ سولہ ڈاکٹر سفید کوٹ پہنتے تو چھوٹا سا گھر امن کا گہوارہ نظر آتا۔ ڈاکٹر بننے کے بعد یہ سب مزید تربیت کے لیے انگلستان چلے گئے۔
کہانی کا اگلا حصہ اس سے بھی غیر معمولی ہے۔
ان سولہ افراد کا دل دیارِ غیر میں نہ لگا اور انھوں نے واپس پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔ ابوظفر کا کہنا تھا کہ جنگل میں مورناچا کس نے دیکھا۔ ”جس وطن نے تمھیں دو سو نو روپے سالانہ فیس میں ڈاکٹر بنایا‘کیا اسے بھول جاؤ گے۔ کیا بھول جاؤ گے کہ وہاں لوگ ایڑیاں رگڑتے ہوئے مر جاتے ہیں“۔ ان سب نے اس حکم پر سرِ تسلیم خم کیا اور واپس لوٹ آئے۔ ہمارے والدین نے ایک فیصلہ اور بھی کیا۔ انھوں نے کہا ان کے پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں بھی مسیحا بنیں گے۔یوں ابو ظفر اور عطیہ خاتون کے پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں بھی میڈیکل کالج میں پہنچ گئے۔ 1999 میں ابو ظفر خاندان نے کراچی کے نواح میں گھر بنانے کا ارادہ کیا۔سولہ ایکڑ جگہ خریدی گئی اور کوہی گوٹھ نامی گاؤں میں ایک خوبصورت گھر تعمیر ہوگیا۔ ابو ظفر اور عطیہ خاتون کو بس یہی کچھ دیکھنا تھا اور پھر انھوں نے آنکھیں موندیں اور کسی اور سفر پہ روانہ ہوگئے۔والدین رخصت ہوئے توبچوں نے ان کی یاد میں ہسپتال بنانے کا ارادہ کیا۔ نگاہِ انتخاب اسی خوب صورت گھر کی طرف گئی جو سب نے مل کر بنایا تھا۔ سولہ ایکڑ زمین جس کی موجودہ مالیت پندرہ کروڑ کے لگ بھگ ہے ہسپتال کے لیے وقف کردی۔”ہم اپنے لیے کتنے گھر بنائیں گے۔دمِ واپسیں تو چند گز زمین ہی درکار ہوگی“۔ کوہی گوٹھ ہسپتال کے نام سے بننے والا یہ ہسپتال زچہ اور بچہ کے امراض کے حوالہ سے دنیا کے بہترین اداروں میں شمارہونے لگا۔ عالمی ادارہ ئ صحت اور جان ہاب کن یونی ورسٹی نے اسے جنوبی ایشیا کا بہترین ہسپتال قرار دے دیا۔ پورے سندھ سے آنے والی بچیوں کو یہاں مڈوائف کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔ میں ان بچیوں سے ملا تو آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ آنسو صرف دکھ میں نہیں بہتے۔ امید اور تشکر میں بھی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔
”ہمارے والدین نے جو خواب دیکھے ان کا سلسلہ نہیں رکا“۔ ٹیپو سلطان اور ان کے بھائی سراج الدولہ کہنے لگے۔ ہم نے ایک روز فیصلہ کیاکہ اب اس ہسپتال کو یونی ورسٹی کا رتبہ ملنا چاہیے۔ سوچ بچار‘ منصوبہ بندی‘ وسائل کی تلاش۔ کچھ اور دردمند لوگ بھی آن ملے جن میں عبداللہ فیروز سرِ فہرست ہیں۔ خوش اخلاق‘ خوش مزاج اور دریا دل۔بہت جلدحکومتِ سندھ نے یونی ورسٹی کا چارٹر ڈاکٹر ٹیپو سلطان اور عبداللہ فیروز کے حوالے کردیا۔ کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد۔اب یہاں ایک بہت بڑی یونی ورسٹی بنے گی جس کا ابتدائی تخمینہ ڈیڑھ ارب سے زائد ہے۔
جی چاہتا ہے اس شخص کا دوبارہ ذکر کریں جس نے یہ سارے خواب دیکھے۔ ابوظفر! ابوظفر ایک پرائمری سکول میں استاد تھے۔ ان کی بیگم عطیہ خاتون نے شادی کے بہت سال بعد الف ب سیکھی اور پھر ڈاکٹر بنیں۔ آج اس خاندان میں چالیس افراد ڈاکٹرہیں۔ ستر سال پہلے ایک شخص بے سرو سامانی میں سرحد عبور کرتا ہے اور پھر ایک نئی کہانی شروع ہوتی ہے۔ عزم‘ جدوجہد اور استقلال۔دردمندی‘ ایثا ر اور قربانی۔
ابوظفر اورڈاکٹر عطیہ خاتون ایک ایسی کہانی رقم کرگئے جس کی مثال مشکل سے ملے گی۔ خواب خواب اور خواب!کوہی گوٹھ سے واپسی کا سفر اس کہانی کو دہراتے گذر گیا۔ ڈاکٹر ٹیپو سلطان‘ ڈاکٹر سراج الدولہ اور ڈاکٹر سیدشیرشاہ۔تین بھائی ابوظفر کی اس لازوال کہانی کے اہم کردار ہیں۔ دولت اور آسائش کو تج دینے والے۔ ایک دوست نے کہا شاید یہ کہانی ان ہزاروں ڈاکٹرز کے لیے بھی ہے جو ”دو سو نو روپے“ سالانہ فیس دے کر ڈاکٹر بنے اور پھر وطن چھوڑکر دیارِ غیر میں جابسے۔کاش کوئی انھیں بتائے کہ کچھ لوگ ان کی راہ تکتے ہیں۔