25 Jul

Yeh Do Crore Buche-یہ دو کروڑ بچے

میں نے امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔میں اس صبح کا منتظر ہوں جو اڑھائی کروڑ بچوں کو سکول جاتا ہو ا دیکھے گی۔ معطر‘ مہربان‘ جاں فزا۔
”دنیا میں دو سو کے لگ بھگ ممالک ہیں۔ ان میں دس ممالک ایسے ہیں جہاں ان بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے جو سکول نہیں جاتے۔ جن کے ہاتھ میں کاغذ ہے‘ قلم‘ نہ کتاب۔ ان دس ممالک میں ایک پاکستان بھی ہے ……سکول سے باہر چھے کروڑ بچوں میں ہردسواں بچہ پاکستان سے تعلق رکھتا ہے“۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے یہ بات کہی تو میرے ساتھ بیٹھی ہوئی اطالوی خاتون نے گھوم کے مجھے دیکھا۔ میں چند لمحے پہلے اسے فخر سے بتارہا تھا کہ میں پاکستان سے آیا ہوں اور میرا وطن بے حد عظیم ہے۔ پہاڑ‘ دریا‘وادیاں‘ صحرا‘ کوہ و دمن۔ ہم ایٹمی قوت بھی ہیں۔ مجھے لگاجیسے مجھ پہ گھڑوں پانی پڑگیا ہو۔ اس کی آنکھوں سے جھلکتی ہوئی حیرت مجھے ابھی تک یاد ہے۔
بہت سے لوگوں کے لیے سیکرٹری جنرل کی یہ بات شاید کوئی خبر نہ ہو لیکن جو سوچتے ہیں ان کے لیے ہے۔سینے میں ایک کسک سی بیدار ہوتی ہے۔ کیا ہم وہی ہیں جنہیں یہ کہا گیا کہ علم کی جستجو کرو خواہ چین جانا پڑے۔ جنہیں سب سے پہلا پیغام ہی پڑھنے کا ملا۔ افسو س اب نہ کوئی گھر سے نکلتا ہے نہ کوئی جستجو کرتا ہے۔
بان کی مون کی تقریر ابھی جاری تھی۔”پاکستان میں سکول سے باہر بچوں کی تعداد اڑھائی کروڑ ہے“۔ انھوں نے اپنی بات مکمل کی۔ پاکستانی حکام نے جل کر کہا نہیں یہ دو کروڑ ہیں۔ بلکہ اس سے بھی کم۔ خوش نظری‘ خوش گمانی‘ خوش فہمی یا خود فریبی۔ ہاں شاد و آباد بستیوں کا ہم کہہ نہیں سکتے۔وہاں تو ایک بچہ بھی سکول سے باہرنہیں۔ یہ بدقسمت بچے دور افتادہ دیہاتوں اور پسماندہ بستیوں میں رہتے ہیں۔ تھر کے ریگ زار میں‘ راجن پور‘ لورا لائی اورکرک میں۔ یہ کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔ سائیکلوں کے پنکچر لگاتے ہیں۔ گندگی کے ڈھیر سے کوڑا چنتے ہیں۔ کندھے پہ کپڑا رکھ کر ہوٹل کا میز صاف کرتے ہیں۔ ان کا ایک ہی نام ہے ”چھوٹا“۔کسی نے کہا انھیں چھوٹا نہ کہو یہ چھوٹے اپنے گھر کے بڑے ہوتے ہیں۔ ان کے دم قدم سے چولہے جلتے ہیں۔ ٹکڑوں پہ پلنے والے‘ کونے کھدروں میں جینے والے‘ بوسیدہ کپڑے پہننے والے۔ جبرِ مسلسل کا شکار یہ چھوٹے۔ اڑھائی کروڑ ہیں یا دو کروڑ۔ اعدادو شمار تو گورکھ دھند ا ہیں۔ یہ جتنے بھی ہیں ہمارے قومی وجود کا حصہ ہیں۔ گھر میں ایک شخص بھی ناخوش ہو تو سارے گھر کو سانپ سونگھ جاتا ہے لیکن یہ تب ہوتا ہے جب خوشیاں سانجھی ہوں اور یاد ہو کہ خواب کسی اور کے بھی ہوتے ہیں۔ ہم ایسے کہاں۔ ہم توکوتاہ فکر ہیں‘ کوتاہ قامت۔ ہمیں تو یہ بھی یاد نہیں کہ جہالت زہر ہے۔ زہر ہلاہل۔جس سے ہر تہذیب نے پناہ مانگی‘ ہر سماج نے الامان کہا۔
”جہالت کی تاریکی صرف علم سے دور ہوتی ہے“۔ اگلے مقرر نے اپنی بات شروع کی۔ علم جو ہر تاریکی کو نور بنا دیتا ہے۔ علم جو انسانیت کا شرف ہے۔ پیغمبروں کی میراث‘ صوفیوں کا وطیرہ۔ اور لوگ ہیں کہ پھر بھی علم حاصل نہیں کرتے۔ سچ کہا گیا آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں‘ یہ تو دل ہیں جو مردہ ہو جاتے ہیں۔ کانفرنس ختم ہوئی۔ لوگ باہر نکلنے لگے۔ ”مسٹرثاقب!مجھے یقین ہے کہ ہم دوبارہ ملیں گے تو پاکستان کا نام اس فہرست میں نہیں ہوگا“۔ اطالوی دوشیزہ نے یہ کہا اور مسکرانے لگی۔ لوگ اتنے بھی نامہربان نہیں ہوتے۔ اب کے اسے میر ی دلبستگی مقصود تھی۔ اس واقعے کو گذرے مدت ہوگئی لیکن نیلی آنکھوں کی وہ حیرت ابھی تک نہیں بھولی۔
یہ اڑھائی کروڑ بچے کب سکول جائیں گے۔وہ صبح کب طلو ع ہوگی جو کسی ٹوٹے پھوٹے گھر پہ دستک دے کر وہاں بیٹھے ہوئے بچے سے کہے گی آؤ میں تمھیں سکول لے جاؤں۔ یہ لو کاغذ‘ قلم اور کتاب۔ تمھارے گاؤں میں نیا نیا سکول بنا ہے۔ ایک استاد بھی آیا ہے۔ کھیل کا میدان بھی ہے۔کمپیوٹر بھی ہے جو تمھیں ساری دنیا سے جوڑد ے گا۔ اُٹھو منہ دھو لو۔ میں تمھیں لینے آئی ہوں۔ تم تو قدر ت کا تحفہ ہو۔ خدا کی سب سے خوبصورت تخلیق۔ تمھارے ہاتھوں میں اوزار اچھے نہیں لگتے۔ یہ سختی اور کھردرا پن۔ ان ہاتھوں کی نرمی کہاں کھوگئی۔ تمھیں منزل تک پہنچنا ہے۔ غربت کی زنجیربس ٹوٹنے کو ہے۔
یہ اڑھائی کروڑ بچے ……مجھے ناروے میں ہونے والی اس کانفرنس کی باتیں نہیں بھولتیں۔ نہ ہی ان آنکھوں سے چھلکتی ہوئی حیرت بھولتی ہے۔پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کا کہنا ہے کہ جب تک ایک بچہ بھی سکول سے باہر ہے وہ چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ ان سے یہی توقع ہے۔ وہ یہ کام کربھی جائیں گے لیکن یہ صرف پنجاب کے وزیراعلیٰ کی ذمہ داری نہیں ہر صوبے کے وزیراعلیٰ اور ہر اس شخص کی ذمہ داری ہے جو اس وطن سے محبت کرتا ہے۔ وفاقی حکومت‘ چاروں صوبائی حکومتیں‘ گلگت بلتستان‘ آزاد کشمیر‘ فاٹا اور نیشنل کمیشن برائے انسانی ترقی۔ یہ اڑھائی کروڑ بچے …… میں اس صبح کا منتظر ہوں جو ان بچوں کو سکول جاتا ہوا دیکھے گی۔
میں نے ابھی امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔