11 Jul

Abdul Sattar Edhi Ka Khuda Se Phela Mukalma-عبدالستار ایدھی کا خدا سے پہلا مکالمہ

عبدالستار ایدھی کا پہلا مکالمہ جو انھوں نے اپنے رب سے کیا۔
”اے خدائے ذوالجلال! اے دلوں کے راز جاننے والے!اے میرے عظیم رب!
”میں عبدالستار ایدھی ہوں۔میں نے ساٹھ برس قبل لو گوں کی خدمت کا آغاز‘ میٹھا در کر اچی سے کیا۔ یوں لگتا ہے اس بات کو صدیاں بیت گئیں۔ میں نے ہزارہا زخمیوں کو دریاؤں‘ کنوؤں‘ سڑکوں اورجائے حادثات سے نکالا۔ سیکڑوں نومولود بچوں کو سینے سے لگایا۔یہ بچے مین ہولوں، گٹروں اور پلوں کے نیچے پڑے ہو ئے تھے۔ میں نے ان ہزاروں میتوں کو بوسا دیا جو ریل گاڑی کی بوگیوں، پٹڑیوں اور گندی نالیوں سے برآمد ہوئیں۔ میں نے ایسی بدبودار لاشیں اٹھائیں جو صرف ایک بار چھو لینے سے ہی بکھرجا تی ہیں۔ میں نے انھیں اسی احترام سے غسل دیا جیسا غسل میر ی ماں کو دیا گیا تھا۔ میں نے ا نھیں کا فور لگایا۔کفن پہنایا اور پھر اپنے ہا تھ سے مٹی کھود کر دفنا دیا۔میں نے دھتکاری ہوئی عورتوں‘ نشہ میں لت نوجوانوں اور غلاظت کے ڈھیروں پہ پڑے نوزائیدہ بچوں کو گلے لگایا۔اے میرے رب!میں نے تجھے منبر و محراب میں نہیں کچی بستیوں اور ٹوٹے پھوٹے دلوں میں ڈھونڈا۔
میں نے انسانیت کی خاطر سڑکو ں، گلیوں اور بازاروں میں بھیک مانگی۔ میں دنیا کے ہر اس خطے میں گیا جہاں قدرتی آفات نے تباہی مچائی۔ ناقابل ِ عبور راستے اور دشوار گذار منزلیں۔ موسم کے سردو گرم اور صعوبتیں۔یہ میری راہ میں مزاحم نہ ہوسکے۔ میر ا ارادہ پہاڑوں کی طرح بلند رہا۔ مجھ پرطرح طرح کے الزام عائد ہو ئے۔ کافر‘ لادین‘ ملحد‘ زندیق اور زکوٰۃ چور۔لیکن میرے یہ مہربان میری ہمت کم نہ کر پائے۔ تیرے مجبور‘ بیمار‘ لا وارث‘ معذور اور مسکین بندے ہمیشہ میری محبتوں کا محور رہے۔ ان کی خدمت ہی میری منزل، میرا اوڑھنا بچھونا تھا۔میں نے انھیں دلاسا دیا۔میں نے بدکار ماں باپ کے معصوم بچوں کے لیے پنگھوڑا بنایا۔ میں انھیں اپنی آغوش میں لے کر ان کے آنسو پونچھتا رہا۔ میں نے زندگی بھر دیانت سے کام لیا‘ انکسار اور عاجزی میرا اوڑھنا بچھونا تھا۔ ساٹھ سال کے دوران میں نے ایک بار بھی چھٹی نہیں کی۔ میں نے کام کو عشق سمجھا۔میں جانتا تھا کہ بندگی اور عشق میں چھٹی نہیں ہوتی۔ تیرے متقی بندوں نے بھی کبھی کبھار نماز قضا کی ہو گی لیکن میں نے خدمت کی نماز کبھی قضانہیں کی۔ کسی نے ایدھی کو پکارا اور ایدھی اس کی صدا پہ نہ پہنچا‘ ایسا نہیں ہوا۔ میں نے خدمت کے وقت تیرے بندوں میں تمیز نہیں کی۔میں نے مذہب کو خانوں میں نہیں بانٹا۔ میرے نزدیک انسانیت ہی سب سے بڑا مذہب تھا۔ کالا گورا‘ چھوٹا بڑا‘ عربی عجمی‘ ہندو مسلمان۔ میں نے ان تعصبات سے بلند ہوکے کام کیا۔
اے میرے عظیم رب! تو رب العالمین ہے اور تیرا رسول ؐ رحمتہ اللعالمین۔ میں نے تیری اور تیرے نبیؐ کی سنت پہ عمل کیا اور چاروں طرف حئی علی الفلاح کا نعرہ لگاتا رہا۔تو نے بالآخر مجھے اپنے پاس بلا لیا لیکن جو کام تو نے مجھے سونپا وہ اسی خوب صورتی سے ادا ہورہا ہے۔ ایمبو لینس چل رہی ہے۔ مردوں کو نہلایا جارہا ہے اور یتیموں کے لیے ایدھی سنٹر کی آغوش وا ہے۔تو جانتا ہے کہ میں نے دنیا میں محل نہیں بنائے۔ میں نے کھدر کے محض دو جوڑوں میں زندگی گذار دی۔ میں نے جوتوں کا دوسرا جوڑا نہیں خریدا۔ میں نے کہا مجھے انھی بوسیدہ کپڑوں میں دفنا دو کہ نئے کپڑوں کی کسی اور کو ضرورت ہے۔ میرے نحیف بدن کے سارے اعضاء تیری راہ پر چلتے چلتے شکستہ ہو چکے تھے۔ صرف دو آنکھیں بچی تھیں۔ میں وہ بھی تیری دنیا میں چھوڑا ٓیا کہ کسی اور کی اندھیری رات میں روشنی ہو جائے۔ سنا ہے میرے نکتہ چیں اس پر بھی معترض ہیں۔ مجھ پر کفر کے فتوے لگ رہے ہیں۔ یہ ستم نئے نہیں۔ میں اور میرے ساتھی کئی بار قربانی دے چکے ہیں۔ اس شہر میں جہاں میں نے لاشیں اٹھائیں میرے کارکنوں کو کاری زخم پہنچائے گئے۔ کسی کو زدوکو ب کیا گیا، کسی پر گولیاں چلیں اور کسی کو اغواء کرلیا گیا۔ شہر کے لوگ اس ظلم کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے تھے لیکن کہیں سے احتجاج کی لہر نہ اٹھتی۔وہ سب خاموش رہے۔حکومت بھی خاموش رہی۔بے کراں سناٹا اور گہرا سکوت۔ اگر کو ئی دکھ اور کرب میں تڑپا تو وہ درختوں کی شاخوں میں چھپے ہوئے کمزور پرندے تھے۔سنا ہے اب بھی شہر کے اکثر لوگ خاموش ہیں۔بے کراں سناٹا اور گہرا سکوت۔
اے میرے بے نیازرب!میں تمھارے پاس پہنچ چکا ہوں۔اپنی تمام ترلغزشوں اور کوتاہیوں کے ساتھ۔ اب مجھے اس دن کا انتظار ہے جب تو انصاف کی مسند پر براجمان ہو گا۔جب سورج لپیٹ کربے نور کر دیا جائے گا۔ جب ستارے اپنی کہکشاؤں سے گر پڑیں گے۔ جب پہاڑ فضا میں بکھرنے لگیں گے۔ جب سمندروں کا پانی بپھر جائے گا۔ جب کائنات زیرو زبر ہو جائے گی۔ مجھے یقین ہے تو اس روزان ظالموں کو معاف نہیں کرے گا جو تیرے بندوں کو ستاتے رہے۔ جنہوں نے قتل و غارت کا بازار گرم کیا۔ جنہوں نے ماؤں کی گودیں اجاڑیں۔ جنہوں نے عبادت گاہوں کو آگ لگائی۔جنہوں نے امانتوں میں خیانت کی۔ مجھے یقین ہے تو انھیں معاف نہیں کرے گا۔ستونوں میں بند د ہکتی ہوئی آگ ان کی ہڈیوں تک پہنچ جائے گی۔ ازل سے ابلتا ہوا لاو اانھیں پگھلا کے رکھ دے گا۔ تو انہیں کہیں بھاگنے نہیں دے گا۔ ان کی چیخ وپکار ان کے سینوں میں گھٹ کے رہ جائے گی…… تیرا بندہ‘ تیرا عبدالستار‘ جسے لوگ ایدھی کہتے رہے تیرے حضور سرنگوں ہے اور اپنے اور اپنے ساتھیوں لیے عفوو درگذر کا متمنی ہے“۔
مجھے لگتا ہے یہ صرف عبدالستار ایدھی کا نہیں ہر اس شخص کا مکالمہ ہے جو مظلوم ہے۔ ان مظلوموں کا ایک سوال اور بھی ہے……”اے خدا! ابھی حشر میں کتنی دیر باقی ہے۔ جزا اور سزا کا وہ دن جس کا تو نے وعدہ کیا کتنی مسافت پر ہے“۔