16 Jan

Aik Aur Diya-ایک اور دیا

اس کے لہجے میں بلا کا اعتماد تھا۔ جیسے کوئی مشکلات کو شکست دینے کے بعد سرخرو کھڑا ہو۔
ہال میں بارہ سو سے زائد افراد موجود تھے۔وہ ایک لمحہ کے لیے رکا اور پھر کہنے لگا ”بچپن میں مجھے اس حقیقت کا احساس نہ تھا کہ غربت کیا ہوتی ہے۔ اگر خاندان کا سربراہ ایک معمولی مزدورہو تو دنیا کی نظروں میں بے چارگی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اس حقیقت کی سمجھ اس وقت آئی جب میں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا اورانٹر میڈیٹ میں داخلہ لینے کا وقت آیا۔ والد صاحب کی خالی جیب اور داخلے کے اخراجات۔ وہ تو دو سال قبل بڑی بہن کی شادی پر لیا قرض بھی اتار نہیں پائے تھے جب کہ ابھی چار بیٹیاں اور بھی تھیں۔ وہ قرض اتارتے یا بقیہ بیٹیوں کی فکر کرتے۔ اوپر سے گھر کے اخراجات اور میری تعلیم! اس موقع پر میری ماں نے پہلی مرتبہ اپنا زیور بیچا۔ جب میں والد صاحب کے ساتھ ماں کی انگوٹھی بیچنے گیاتو میرے اور ابا کے دل پر کیا گزر رہی تھی شاید یہ کبھی بیان نہ کرسکوں۔ اپنی ضرورت کی خاطر گھر کی کوئی شے اور وہ بھی والد ہ کا زیور بیچنے کا تلخ تجربہ۔ اس کے بعد کئی روز تک میں اپنی ماں سے نظریں نہ ملا سکا۔ ماں کی انگوٹھی بکی اور میں نے دوبارہ تعلیم کا سفر شروع کیا لیکن ابھی بہت دور جانا تھا۔ ایک لق ودق صحرا سامنے تھا۔ کسی نے طعنہ دیا ابھی تو صرف انگوٹھی بکی ہے نجانے اور کیا کیا بکے گا۔
میں نے دوستوں کو لاہور کی ایک مشہور یونی ورسٹی کا نام لیتے ہوئے سنا تو مجھے بھی شوق ہوا اور میں نے بھی قسمت آزمانے کا فیصلہ کرلیا۔ حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس میں کام یابی بھی ہوگئی۔میں اورLUMS جیسا بڑا ادارہ۔ ایک اور رشتہ دار نے کہا کچے گھروں میں رہنے والے محلات میں پہنچ بھی جائیں تووہاں رہ نہیں پاتے۔ لمز میں پڑھنے کے لیے میرے ذرائع آمدن نا کافی تھے۔وسائل اکٹھے نہ ہوئے اور گہری مایوسی نے آن گھیرا۔ابھی میں آنسو پونچھ رہا تھا کہ ایک خط آیا۔ میری کارکردگی کی بنیاد پر مجھے پنجاب حکومت کی طرف سے سکالر شپ کے لیے منتخب کرلیا گیا تھا۔ یوں محسوس ہوا جیسے قدرت نے دل میں پنپتی خواہشوں کو کہیں قریب سے سن لیا ہو۔ یوں اس سکالر شپ کی بدولت تعلیم کے اخراجات پورے ہونے لگے۔میری تو گویا زندگی ہی بدل گئی۔
مجھے لمز میں داخلہ مل گیا لیکن میں ہوسٹل میں نہ رہ سکتا تھا۔ یہ اضافی اخراجات کہاں سے آتے۔ یونی ورسٹی سے دور ایک کمرہ کرائے پر لیا۔ تین بسیں بدل کر لمز پہنچتا۔ لمبی لمبی گاڑیوں میں آنے والے طلبا کو دیکھتا اور دولت کی تقسیم اور تفریق کے کلیے کو سمجھنے کی کوشش کرتا۔ جب میرے ہم جماعت نرم بستر پر سکون کی نیند سوتے تو میں شل کردینے والی سردی میں رات گئے مختلف گھروں میں ٹیوشن پڑھا کر کچھ پیسے کمانے کی کوشش کرتا۔ میری فیس کا بندوبست تو ہوگیا تھا لیکن بہنیں سکول کیسے جاتیں۔ پھر ایک اور دل خراش لمحہ آیا جب کتب کی خریداری کے لیے میری والدہ نے بالیاں بھی بیچ ڈالیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سکالرشپ کی بدولت اگر تمھیں پڑھنے کاموقع مل گیا ہے تو یہ قربانی رائیگاں نہیں جانی چاہیے۔وقت گذرتا گیا۔ ایک روز تعلیم کا یہ مرحلہ مکمل ہوا اور اس سکالر شپ نے ایک مفلوک الحال بچے کو اس قابل بنا دیا کہ وہ ایک کمپنی میں بطور سافٹ ویر انجینئر کام کرنے لگا۔ وہ کتنا خوب صورت دن تھا جب میں پہلی بار سفید شرٹ اور ٹائی پہن کر دفتر پہنچا۔ ماں کی انگوٹھی‘ بالیاں اور یہ سکالر شپ۔ مجھے سب یاد آرہا تھا اور پھر غالب کا یہ شعر
سفینہ جب کہ کنارے پہ آلگا غالب
خدا سے کیا ستم وجورِ ناخدا کہیے
ایک نئی زندگی شروع ہو نے لگی۔وہ دکھ اب ماضی کا حصہ تھے۔ اب میں گھر کے تمام اخراجات اٹھا رہا ہوں۔میں خوش ہوں کہ میں نے اپنے والد کو اس مشقت سے آزاد کردیا جو انھوں نے میری پرور ش کے لیے کی۔
حاضرین ِ محفل! دکھ‘ درد‘ کرب اور محرومی۔ان سب کے معنی وہی جانتا ہے جوان سے گزرا ہو۔ جس کی تعلیم کی خاطر والد نے بارہ بارہ گھنٹے سڑکوں پر دھواں پھانکا ہو‘ جس کی والدہ نے اپنا زیور بیچ ڈالا ہو اورجس نے ٹیوشنز پڑھا کر اپنے لیے سانس لینے کی گنجائش نکالی ہو۔ہاں! وہی جانتا ہے کہ دکھ میں نیکی اور احسان کی اہمیت کیا ہے۔ میں آج جو کچھ بھی ہوں اور جس مقام پر ہوں یہ سب وزیراعلیٰ پنجاب اور والدین کی دعاؤں کی بدولت ہوا۔ میں عہد کرتا ہوں کہ میں بھی ضرورت مند طلبا کی مالی معاونت کروں گا۔مایوسی میں گھر ے ہوئے کسی شخص کو ڈھونڈ کر کہوں گا میرا ہاتھ تھامو! میں تمھیں ساحل پہ لے جانے آیا ہوں۔ پنجاب ایجوکیشنل انڈومنٹ فنڈ نے میرے ساتھ کچھ ایسا ہی کیا۔میں تو صرف ایک طالب علم ہوں حکومت پنجاب کے اس فنڈ نے مجھ جیسے ایک لاکھ پچھتر ہزار بچوں کو منزل کا راستہ دکھایا“۔نو جوان نے یہ کہا اور سٹیج سے اترنے لگا۔ اسے آنکھیں نم کرنے کا ہنر آتا تھا۔
11 جنوری2017‘ ایوان ِ اقبال ……پنجاب ایجوکیشنل انڈومنٹ فنڈ (www.peef.org.pk) کی طرف سے منعقد کی گئی اس تقریب میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ ان ایک لاکھ پچھتر ہزار میں ایک سکالر شپ بھی میرٹ کے خلاف نہیں۔ نہ سفارش‘ نہ رشوت۔اگر یہ سچ ہے تو ہزاروں بار شکر کہ دیانت کے چراغ ابھی روشن ہیں اور مستقبل تابناک! کوئی ہے جو اس دعوے کی تہہ تک پہنچے۔حقیقت کا کھوج لگائے۔ صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے۔