23 Jan

Bacha Khan-باچا خان

20‘ جنوری باچا خان کا یوم وفات ہے۔
باچا خان ہماری تاریخ کا ایسا کردارہیں جنھیں سمجھنے میں بہت سے لوگوں نے بھول کی۔ کچھ لوگوں نے جان بوجھ کر اور کچھ لوگوں نے انجانے میں۔ باچا خان زندگی بھر جدوجہد کرتے رہے۔ سب سے پہلے انھوں نے جہالت سے جنگ کی ٗ پھرنا اتفاقی سے اور پھر برطانوی سامراج سے برسرِ پیکار ہوئے۔ اسی دوران پاکستان بن گیا اور وہ آمریت کے خلاف سینہ سپر ہوگئے۔ خان عبدا لغفار خان المعروف باچا خان نے بانوے سال کی عمر پائی لیکن ان بانوے سالوں میں ستائیس سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گذار دیئے۔ بارہ سال برطانوی سامراج کی اسیری میں اور پندرہ سال اپنے ہی وطن میں آمریت کی قید میں۔ کم و بیش اتنے ہی سال کی قید نیلسن منڈیلا کی قسمت میں لکھی تھی۔باچا خان نیلسن منڈیلا تو نہ بن سکے لیکن جرات اور بہادری میں وہ کم بھی نہ تھے۔ شاید ان میں معاف کردینے کی صلاحت اس قدر نہ تھی۔
باچا خان نے ہوش سنبھالا تو پختون معاشرہ کم علمی ٗ جہالت اور تعصب میں جکڑا ہوا تھا۔ قدیم رسوم ورواج میں گھرے لوگ غربت کی سختیوں کا شکار تھے۔ باچا خان نے پختونوں کو غربت سے نکالنے کے لئے اپنے نظریات کا پرچار شروع کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پختونوں کے مسائل کا حل”علم اور تجارت“ میں پنہاں ہے۔ علم سے جہالت کے اندھیرے دور ہوں گے اور تجارت سے معاشی ترقی کی راہ ہموار ہو گی۔ پختونوں کی ترقی کے لئے باچا خان نے تین اداروں کی بنیاد رکھی۔ انجمن ِ اصلاحِ افغانیاں ٗ انجمن زمینداراں اور پختون جرگہ۔ 1929میں انہی اداروں کی کوکھ سے خدائی خدمت گار تحریک کا آغاز ہوا۔ خدائی خدمت گار ٗ رضاکاروں پر مشتمل ایک ایسی تنظیم تھی جس نے پختون معاشرہ میں چند بڑی تبدیلیوں کی داغ بیل ڈالی۔ اس تحریک میں شامل افراد کو سرخ پوش کہا جاتا تھا۔ ان سرخ پوشوں کو عدم تشدد کی تربیت دی جاتی۔ باچا خان کی یہ بات آج بھی لوگوں کے ذہنوں پہ نقش ہے کہ تشدد سے تشدد جنم لیتا ہے اور عدم تشدد سے محبت کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ خدائی خدمت گار تحریک کی بدولت باچا خان عوامی امنگوں کے ترجمان بن گئے۔لوگوں کے دلوں میں گھر کرنا آسان نہیں۔ انا کا بوجھ اتارے بغیر یہ منزل سر نہیں ہوتی۔
پاکستان بننے کے بعد بھی باچا خان نے اپنی آزاد فطرت پر حرف نہ آنے دیا۔ صوبائی خود مختاری اور چھوٹی قومیتوں کے حقوق ٗ ان کی منزل تھے۔ وہ پاکستان پر کسی ایک صوبے کے تسلط کے خلاف تھے۔ ان کے مخالف اسی نکتہئ نظر کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے حالانکہ پختونوں کی بات پاکستان ہی کی بات ہے۔ پنجابی ٗ سندھی ٗ پختون ٗ بلوچ‘ سرائیکی اور مہاجر۔ یہ سب باہم ملتے ہیں تب ہی پاکستان بنتا ہے۔ باچا خان کے فرزند خان عبدالولی خان سے کسی نے پوچھا تم پختون ہویا پاکستانی تو عبدالولی خان نے کہا کہ میں ”چار ہزار سال سے پختون ٗ چودہ سو سال سے مسلمان اور پچاس
سال سے پاکستانی ہوں۔“ انسان ہمہ وقت ارتقاء کی طرف مائل ہے۔ جو ہم آج ہیں ضروری نہیں کل بھی وہی ہوں۔ قائدِاعظم سے بھی ایک بار کہاگیا کہ کیا آپ وہ وقت بھول گئے جب آپ پکے کانگرسی تھے۔ ”ہاں! ایک وقت وہ بھی تھا جب میں پرائمری سکول میں پڑھتا تھا۔“قائدِاعظم نے مسکرا کر جواب دیا۔
باچا خان کی جدوجہد پر غور کرتے ہوئے ایک سوال جو بہت شدت سے ابھرا وہ اس سلوک کے بارے میں ہے جو باچا خان سے روا رکھا گیا۔ انگریز نے انھیں بارہ سال جیل میں رکھا اور آزادی ملنے کے بعداپنے وطن میں انھیں پندرہ سال جیل میں رکھا گیا۔ ہم اختلافِ رائے کوبرا کیوں کہتے ہیں۔ ہم صوبائی خود مختاری سے خوفزدہ کیوں ہیں۔ سرحد ٗ سندھ‘ پنجاب اور بلوچستان۔ ضمیر کے ان گنت قیدی۔ وہ لوگ جنہیں نظریات کی بناء پر کالی کوٹھڑی میں دھکیل دیا گیا۔ باغیوں کو نظر بند کرنے کی روایت ابھی تک قائم ہے۔ بے گناہ کب تک سزا وار ٹھہرائے جائیں گے۔ ہر سال20جنوری کو کچھ لوگ خان عبدالغفار خان کی برسی مناتے ہیں۔ اس موقع پر ہمیں ان سب پاکستانیوں کو خراجِ تحسین پیش کرنا چاہیے جنہوں نے اپنی زندگی کے خوبصورت دن صرف اس لئے سلاخوں کے پیچھے گزار دیئے کہ وہ اہلِ وطن کو آزاد دیکھنا چاہتے تھے۔ فیض احمد فیض سے لے کر حبیب جالب تک۔یہ سب عزتِ نفس اور حریت کا پیغام دیتے رہے:
نہیں یہ شانِ خوداری چمن سے توڑکر تجھ کو
کوئی دستارمیں رکھ لے کوئی زیبِ گلو کرلے
کیا باچا خان کے عدم تشدد کے فلسفہ کو آج پھر سے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ عفوودرگذر ٗ محبت اور اخوت۔ یہی وہ راستے ہیں جن پہ چل کر ہم منزل پر پہنچ سکتے ہیں۔ باچا خان آج ہمارے درمیان نہیں لیکن ان کے نظریات یہیں کہیں ہیں۔ لوگ دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں لیکن نظریات انہیں مرنے نہیں دیتے۔ جب تک عدم تشدد کا فلسفہ زندہ رہے گا ٗ باچا خان زندہ رہیں گے۔