18 Jul

Burhan Wani-برہان وانی

میں محوِ حیرت ہوں اور خوش بھی!
لوگ کہتے تھے کہ ہم زوال کی انتہا پہ ہیں۔چراغ گل ہوگئے‘ روشنی جاتی رہی۔ اندھیرا ہی اندھیرا‘ دھواں ہی دھواں۔ ہر طرف گھٹن‘حبس‘ بے بسی ……وہ مائیں ہی نہیں جو کسی مجاہد کو جنم دے سکیں۔ ایسے میں برہان وانی کی شہادت۔ ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں ہے۔ وہ کوئی ستارہ تھا جو چمکا‘ کوئی کرن تھی جو آسمان سے اتری‘ کوئی ماہتاب تھا‘جو ضو فشاں ہو ااور پھر ایک پیغام دے کر واپس چل دیا۔ ہاں! ستارے تو ہوتے ہی اس لیے ہیں کہ کچھ دیر کے لیے چمکیں‘ راہ دکھائیں اور پھر ٹوٹ کے بکھر جائیں۔ظلمت کی سیاہ رات یوں ہی ختم ہوتی ہے۔ صبح یوں ہی طلوع ہوتی ہے۔
دنیا کشمیر کو بھول چکی تھی۔ اس بہتے ہوئے خون کو۔ ستم کی سیاہ رات کو۔ ان ماؤں کو جن کی گودیں اجڑ گئیں۔ ان بہنوں کو جن کے بھائی خاک ہو گئے۔ ان باپوں کو جن کے لختِ جگر واپس نہیں آئے۔ دنیا کشمیر کو بھول چکی تھی۔ہاں‘ دنیا کشمیر کو بھول چکی تھی۔یہ لکھ لُٹ کون ہے جس نے اس کہانی کو پھر سے زندہ کردیا۔ جو آزادی کا علم لے کر گلی کوچوں میں گھومتا رہا‘ پہاڑوں پر‘ وادیوں میں‘ دریا کے کنارے‘ پیڑوں کے سائے میں‘بہتی ندیوں اور خاموش جھیلوں کے آس پاس۔ گھنے درختوں میں د بکے ہوئے پرندوں نے پوچھا‘تم کون ہو۔ اس نے سرگوشی میں جواب دیا……آزادی اور پھر آزا دی کے اس متوالے کا خون وادیوں میں بکھر گیا۔ ایک نئی صبح کی امید میں۔
یہ خون عام خون نہیں۔یہ شہید کا خون ہے۔ اس خون سے نئے جہاں پیدا ہوتے ہیں۔ اس کا صلہ ستائش نہیں‘ تب و تاب جاودانہ ہے۔ سوشل میڈیا پہ وہ انٹرویو بہت عام ہوا جو وانی کے والد نے دیا۔ یہ انٹرویو اندھوں کی بھی آنکھیں کھول دیتا ہے۔ کیا منظر ہے کہ باپ اپنے بیٹے کی موت پہ فخر سے سینہ تان کے کھڑا ہوجائے۔نہ آنسو‘ نہ آہیں‘ نہ گریہ! ایسا کب ہوتا ہے۔ ایسا کہاں ہوتا ہے اور اگر ہو نے لگے تو یہ ایک نئی کہانی کا آغاز ہے۔ مجھے اس باپ کے لہجے میں ایک عجب بانکپن نظر آیا۔ وقار‘ ٹھہراؤ‘ اطمینان اوراظہارِ تشکر۔اس میں ایک روشن مستقبل کی نوید بھی ہے۔ برہان اور اس کے بھائی نے جان دے دی تو کوئی حیرت نہیں۔ اس بہادر باپ کے بیٹوں کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ بھارت اک جنون کا شکار ہے لیکن جنون اور پاگل پن کے باوجود کچھ اچھے لوگ بھی موجود ہیں۔ کچھ لوگ جو ابھی سچ بولتے ہیں۔ تاریخ کو سمجھتے ہیں۔ دلیل مانتے ہیں۔ انھیں اپنی گندگی نظر آتی ہے۔ ایسی ہی ایک آواز ارن دتی رائے کی بھی ہے۔
ارن رائے کہتی ہے کہ کشمیر کبھی بھی بھارت کا حصہ نہ تھا۔ بھارت ایک غاصب ملک ہے۔اس نے کئی قوموں کی آزادی چھین لی۔ جنگِ عظیم دوم کے بعد یہ دنیا کی سب سے بڑی استعماری قوت ہے جس کی حریص نگاہیں اب ہمسائیوں پہ بھی اٹھنے لگی ہیں۔لاکھوں حریت پسند ظلم کی بھینٹ چڑھ گئے۔ حیدر آباد دکن‘ ناگا لینڈ‘ منی پور‘ جونا گڑھ‘ مشرقی پنجاب۔دور کیوں جائیں صرف کشمیر میں دو لاکھ افراد کو شہید کیا گیا۔ ستر لاکھ کی آبادی اور دولاکھ شہید۔ کشمیر کا شاید ہی کوئی گھر ہو جہاں شہادت کی خوشبو نہیں بکھری۔کیا اس خون سے نیا جہان پیدا نہیں ہوگا۔ گاندھی فاؤنڈیشن کی ایک تقریب میں ارن رائے نے ببا نگ دہل کہا”ایک روزبھارت کو ان جرائم کی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ یہ جلے ہوئے گھر‘ یہ لٹی ہوئی عصمتیں‘ یہ بے گوروکفن لاشیں ……یہ سب ایک روز فردِ جرم عائد کریں گے اور پھر تاریخ اپنا فیصلہ سنائے گی“۔
برہان وانی کا خون پوچھتا ہے کہ امنِ عالم کا پرچار کرنے والے کہاں ہیں۔ اے اہلِ جہاں! کب سنو گے تم۔تم ہی توکہتے ہو کہ دنیا میں ایک شخص بھی غلام ہے تو ساری دنیا غلام ہے۔ ایک بستی میں بھی امن نہیں تو ساری دنیا کا امن خطرے میں ہے۔ وانی کی شہادت تمھارے لیے بھی پیغام ہے۔”جب میرا بھائی شہید ہوا تو میں چودہ برس کا تھا۔ میں نے قلم رکھ دیا اور بندوق اٹھالی۔شاید دنیا یوں ہی سرنگوں ہو تی ہے۔ میں نے اگلے کئی سال جدوجہد میں گذار دیئے کیوں کہ آزادی بھیک میں نہیں ملتی۔ اس کے لیے نسل در نسل قربانی دینا پڑتی ہے۔آزادی کے راستے مشکل ضرورہیں لیکن جو صعوبتیں اٹھائیں ان کے لیے مشکل نہیں۔ وہ منزل پہ ضرور پہنچتے ہیں۔جو خون دیتے ہیں وہی سرخ روہوتے ہیں“۔
وانی کا پیغام ان نوجوانوں کے لیے بھی ہے جو مغرب کی دہلیز پہ سرنگوں ہیں۔شہادت کے شوق سے محروم‘ جذبِ دروں سے دور! ”انسان چاہے تو زندگی میں ہی مرجائے اور چاہے تو مرکر بھی امر ہوجائے۔موت سب کو مٹی نہیں بناتی۔
اے خدا ہمیں بھی حق کے لیے اٹھنے کی توفیق دے۔ ہمیں بھی شہادت کے رتبہ سے سرفراز کرکہ یہ رات ختم ہو اور کشمیر آزادی کی صبح طلوع ہوتا ہوئے دیکھے اور وہ برہان وانی۔ اس کی مدح میں یہی کہنا کافی ہے:
خوش ہیں دیوانگیئ میر سے سب
کیاجنوں کر گیا شعور سے وہ