Ek Takreeb Maleeha Lodhi K Sathایک تقریب ملیحہ لودھی کے ساتھ
نیویارک کا ایک خوب صورت ہوٹل۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کی سفیر‘ملیحہ لودھی کی آواز ابھری تو خاموشی سی پھیلنے لگی۔
مقرر کو اپنی بات پہ یقین ہو تو فضا بھی ساکت ہو جاتی ہے۔ لفظ خاموش کھڑے ہوجاتے ہیں کہ کوئی آئے اور ہمیں منتخب کرلے۔ دو سو سے زائد مہمان۔ کوئی کیلی فورنیا سے کوئی ہیوسٹن سے اور کوئی واشنگٹن سے۔ گو ان دنوں واشنگٹن سے اچھی خبر نہیں آتی لیکن سارے لوگ ٹرمپ نہیں ہوتے۔ اس تقریب کا اہتمام محترم مشتاق جاوید اور سعید خان نے کیا۔ نیو یارک میں اتنے لوگوں کو اکٹھا کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔اپنی اپنی دنیا میں مگن۔بیسیوں میل دور لیکن کوئی آواز‘د ل پہ دستک دے تولوگ کچے دھاگے سے بندھے چلے آتے ہیں۔ یہ ایسی ہی کوئی آواز تھی۔ سعید خان نے بتایا کہ ہم پاکستان سے دور ہیں لیکن سال میں ایک دو بار پاکستان کے اچھے اداروں کو ہدیہئ تبریک پیش کرتے ہیں۔ اس اقدام کا نام Pakistan American Community Excellence Award یا PACE Awardہے۔ اس بار یہ ایوارڈ دنیا میں قرضِ حسن کے سب سے بڑے پروگرام اخوت کو حاصل ہوا۔ سعید خان نے غرض و غایت بیان کرنے کے بعد مشتاق جاوید کو دعوت دی۔ مشتاق جاوید کے بارے میں کیا کہا جائے‘ بس یوں ہے کہ الفاظ کم پڑجاتے ہیں اور بقول شخصے ”صحن ِ خیال کا دامن“ سکڑنے لگتا ہے۔ مشہور کالم نگار ہارون الرشید کا کہنا ہے کہ مشتاق جاوید ایک عجیب شخص ہے۔خدا اسے جتنا نوازتا ہے وہ اس کی راہ میں اتنا ہی لٹا دیتا ہے۔ سرگودھا کے ایک دور افتادہ گاؤں میں جنم لینے والا یہ شخص زندگی میں اتنا کام یاب کیسے ہوا۔ یہ کوئی راز نہیں۔ محنت اور دیانت کی راہ اپنالیں اور گن گن کر رکھنے کی بجائے دینے کی لذت سے آشنا ہو جائیں تو آپ بھی مشتاق جاوید بن سکتے ہیں۔ اس کے بعد پروفیسر شاہ رخ حسن کی باری تھی۔ امریکا کی ایک بڑی درس گاہ میں پڑھاتے ہیں۔ پچاس کتابوں کے مصنف۔ امریکا میں کئی دھائیاں گذر گئیں لیکن بلاسود قرضوں کے تصور نے انھیں بھی حیران کر دیا۔”میں نے جب اخوت کے بارے میں سنا تو یقین نہ آیا اور پھر ایک روز میں اس ادارے کو پرکھنے کے لیے پاکستان پہنچ گیا۔ گلگت‘ بلتستان اور تھر پارکر تک گیا۔ ہر جگہ ایک نیا سورج طلوع ہوتا ہوا دیکھا۔ جس معاشرے میں لینے والے دینے والے بن جائیں اسے آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا“۔ ڈاکٹر نثار احمد نے بھی کچھ ایسی ہی باتیں کیں۔ امید کا راستہ۔ اچھے دنوں کی طرف اشارہ۔ڈاکٹر نثار امریکا میں پاکستان کی ایک توانا آواز ہیں اور پھر ملیحہ لودھی کی دل گداز گفت گو شروع ہوئی۔ تحمل‘ وقار‘ ٹھہراؤ اور دل کو چھو کر گذرنے کا فن۔
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
کسی دانانے کہا کچھ نام محض نام نہیں رہتے بلکہ شخصیت کا استعارہ بن جاتے ہیں اگر یہ سچ ہے تو پھر ملیحہ لودھی کے ساتھ بھی یہی کرشمہ ہوا۔”کام یابی دولت میں نہیں اور نہ ہی ناموری میں ہے۔ کام یابی امید کی شمع روشن کرنے کا نام ہے۔ کسی گرے ہوئے کو تھامنا‘ کسی مجبور کے آنسو پونچھنا‘ کسی کی زندگی بدلنا۔ہم سب لوگ زندگی میں بہت آگے پہنچ گئے لیکن اصل کام یابی دلوں کی تسخیر ہے“۔ملیحہ لودھی نے یہ کہا اور پھر ایک اور موضوع چھیڑ دیا۔”ہمیں خود پر تنقید کرنی چاہیے۔ یہ حب الوطنی کا تقاضا ہے لیکن تنقید کے بعدخود کو داد بھی دینی چاہیے۔ ہم اچھی چیزوں پہ فخر نہیں کرتے۔ کیا یہ معمولی اعزاز ہے کہ ہم دینے میں کہیں آگے ہیں۔ ریاست نے جو کچھ کیا کم ہوگا لیکن بحیثیت معاشرہ ہم نے جو کچھ کیا کم نہیں۔نہ جانے کتنے ادارے ہیں جوریاست کے ساتھ مل کے اس کمی کو پورا کررہے ہیں۔اصل فلسفہ یہ ہے کہ خیرات نہیں دینی۔ اپنا بنانا ہے تاکہ لینے والے دینے والے بن جائیں۔ اخوت اور حکومت کے اشتراک سے دس سال میں چھتیس ارب کی تقسیم ہوئی۔ کیا یہ کوئی معمولی بات ہے۔ اب یہ لوگ علم کی شمع روشن کرنا چاہتے ہیں۔اندھیرے کا جواب روشنی ہی تو ہے۔ ہاں! اخوت یونی ورسٹی ایک نیا سنگ ِ میل ہوگی“۔
”اصل کام یابی کسی ٹوٹے ہوئے دل کو چھونا ہے“۔”تنقید اپنی جگہ لیکن تبدیلی کا پیش خیمہ بننا بھی ضروری ہے“۔ایسی بہت سی باتیں۔ یہ باتیں سن کر حیرت ہوتی رہی۔ کسی نے کہا نشاطِ نغمہ و مے سے آگے بھی بہت کچھ ہے۔ پھر اخوت یو ایس اے کے صدر اظہر حمید کو آواز دی گئی۔ اظہر حمید کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو گم نام رہنے کی خواہش کرتے ہیں۔ صلے کی بات آئے تو کہتے ہیں میرے لیے اللہ ہی کافی ہے۔ایسے لوگوں سے ملنے کے بعد ایک عجب سا احساس ہو تا ہے کہ ملنے میں اتنی دیر کیوں کردی۔ مشتاق جاوید‘ سعید خان‘ عبداللہ جعفری‘ ڈاکٹر عبد المجید‘ اکنا (ICNA) کے سابق صدر زاہد بخاری‘ طارق رحمان‘ ڈاکٹر حفیظ الرحمان اور پھر نارووال کے ساجد بھائی اور قیصر۔
جن سے مل کر زندگی سے پیار ہو جائے وہ لوگ
آپ نے دیکھے نہ ہوں شاید مگر ایسے بھی ہیں
نیویارک کے اس خوب صورت ہوٹل میں سارے ہی لوگ ایسے تھے۔ بقول سعید خان‘ اب یہ پاکستان میں نہیں رہتے لیکن ان کے دل اب بھی پاکستان میں رہتے ہیں۔ میں نے تیرھویں کامن(13 CTP) کے پرانے دوست مسعود انور کا شکریہ ادا کیا جس کی دعوت پر محترمہ ملیحہ لودھی نے اس تقریب میں آکر اتنی خوب صورت گفت گو کی۔ محفل ختم ہوئی‘ لوگ گھروں کو جانے لگے اور ہم واپسی کے دوران یہی سوچتے رہے کہ زندگی میں اچھے لوگ دیر سے کیوں ملتے ہیں۔