شیر بنگال سٹیڈیم‘ ڈھاکہ‘ بنگلا دیش۔ پاکستان کا جھنڈا لہرانے والوں میں کچھ بہاری بھی شامل ہیں۔ان کو خراجِ تحسین پیش کرنے سے پہلے ایک پرانی تحریرکا ایک صفحہ۔
”ڈھاکہ میں وہ میرا آخری روز تھا۔ دس دنوں کی شہرنوردی
اچھے لوگوں کی طرح اچھی کتابیں بھی ایک نعمت سے کم نہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ نعمتیں ہم سے روٹھ چکی ہیں۔ ایک روز A man in the Hat” “نامی ایک کتاب پڑھی تو یوں لگا جیسے ابھی بھی
یہ دو کہانیاں مجھے محترمہ عنبرین ساجد کے فون پر یاد آئیں۔ عنبرین‘ وزیراعلیٰ پنجاب کے سیکرٹریٹ میں کام کرتی ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر وقت ضرورت مندوں کی آنکھ سے آنسو پونچھتی رہیں۔ پہلی کہانی ساجن
سنا ہے یہ شعر‘ مغل شہنشاہ نور الدین جہاں گیر نے کشمیر کے بارے میں کہا تھا ؎
اگر فردوس بر روئے زمیں است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است
جی چاہتا ہے کہ اب یہ شعر شاعر
آٹھ مارچعورتوں کے حقوق کا عالمی دن ہے۔
یہ دن عورتوں کی ہمت کے اعتراف کا دن بھی ہے۔ عورت جو ہر معاشرے میں غربت کی صلیب پہ لٹکتی رہی۔ ہر طرح کے ظلم کا شکار بنتی رہی۔ آنسو‘ آہیں
”عدل کرنے والے سے بڑھ کر مستجاب الدعا اور کوئی نہیں ہوتا“۔ یہ جملہ مولانا جعفر قاسمی نے اس وقت کہا جب میں نے ان سے دعا کی درخواست کی۔خوش خصال و خوش جمال جعفر قاسمی کی شخصیت کی بہت
”ایئر فورس کے ویلفیئر فنڈز صرف اسلامی بنکوں میں رکھے جائیں گے“۔ ایئر چیف مارشل‘ طاہر رفیق نے جب یہ بات کہی تو ایک لمحہ کے لیے یقین نہ آیا۔ پھر یوں لگا جیسے ان کے دفتر میں روشنی سی
قومی ہیرو کون ہے؟
جس دن ہمیں اس بات کی خبر ہوگئی اس دن ہمارے بہت سے مسئلے حل ہو جائیں گے۔ اس اہم سوال کا تعلق چندروز قبل لاہور میں ہونے والا ایک واقع سے ہے۔اس روز ایک مشہور
بہاولپور کے نزدیک ایک مشہور ریلوے اسٹیشن ہے‘ سمہ سٹہ۔ ساڑھے تین سو برس قبل یہاں ایک بزرگ رہتے تھے‘ جن کا نام تھا خواجہ محکم الدین سیلانی۔ خواجہ سیلانی صوفی بھی تھے اور درویش بھی۔عابدِ شب زندہ دار۔ جتنا
وہ ایک خوبصورت شام تھی۔
ہمدرد منزل میں اس روز بہت سے لوگ جمع تھے۔ یہ سب منتخب لوگ تھے لیکن جس شخص کی یاد انہیں یہاں کھینچ لائی وہ منتخب تر تھا۔ حکیم محمد سعید‘ ایک سوچ‘ ایک فکر‘