13 Feb

Quomi Hero-قومی ہیرو

قومی ہیرو کون ہے؟
جس دن ہمیں اس بات کی خبر ہوگئی اس دن ہمارے بہت سے مسئلے حل ہو جائیں گے۔ اس اہم سوال کا تعلق چندروز قبل لاہور میں ہونے والا ایک واقع سے ہے۔اس روز ایک مشہور کرکٹر نے مبینہ طور پر قانون کو اپنے ہاتھ میں لیااور یہ کہتے ہوئے قانون توڑنے کی کوشش کی کہ وہ ایک غیر معمولی شخص ہے۔ اخبار کی اس خبر کے مطابق مذکورہ کرکٹر نے کسی تقریب میں جاتے ہوئے تیزرفتاری کے باعث ٹریفک سگنل توڑا اور جب ان کی گاڑی روک کر کاغذات طلب کیے گئے تو ان کی ٹریفک وارڈن سے ہاتھا پائی ہوگئی۔ ٹریفک وارڈن کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں‘ بدتمیزی کی گئی‘ مارا پیٹا گیاجس کی وجہ سے اسے شدید چوٹیں آئیں۔ پولیس نے کرکٹر کے خلاف کارسرکار میں مداخلت‘ تیز رفتاری اور اہل کار کی وردی پھاڑنے کا مقدمہ درج کرکے اسے تھانے میں بند کردیا۔ پولیس کے مطابق یہ مرسیڈیز گاڑی تھی جس کا سالانہ ٹوکن بھی جمع نہیں کروایا گیا تھا اور گاڑی کی نمبر پلیٹ بھی نمونہ کے مطابق نہ تھی۔ ادھر کرکٹر کی جانب سے کہا گیا کہ ایک پاکستانی ہیرو کے ساتھ ایسا سلوک ناانصافی ہے۔”وہ کھلاڑی ہے کوئی دہشت گرد نہیں کہ اسے اٹھا کر جیل میں پھینک دیا جائے“۔
کرکٹر کے والد نے بھی یہی کہاکہ ان کے بیٹے نے کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا‘اس کے باوجود اس کے ساتھ غیر ا خلاقی سلوک کیا گیا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ”یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ ہم قومی ہیرو کو بھی عزت نہیں دیتے“۔ اس امر میں تو کوئی دو آراء نہیں کہ ہم قومی ہیرو کو عزت نہیں دیتے لیکن اس سے پہلے اس بات کا تعین ضروری ہے کہ قومی ہیرو کا مرتبہ حاصل کسے ہونا چاہیے۔ کیا وہ شخص قومی ہیرو ہے جو دولت کے زعم میں ٹریفک کا اشارہ توڑے‘ سبز پلیٹ پر ایم پی اے یا ایم این اے لکھ کر گاڑی کے پیچھے لٹکائے‘ ٹیکس کی مد میں ایک دھیلا ادا نہ کرے‘ قانون اور انصاف کو گھر کی باندی سمجھے اور ریاستی اہل کاروں کو ذاتی ملازموں کا رتبہ دے……یا پھر قومی ہیرو وہ شخص ہے جو محض چند ہزار کی تن خواہ کے بدلے سخت سردی میں ناکوں پہ کھڑا ہوکے دہشت گردوں کے سامنے دیوار بن جائے۔ سرحدوں کی حفاظت کرے یا شہر کے خاک آلود اور متعفن گلی کوچوں کو آئینے کی طرح صاف ستھرا رکھے……کیا کسی ٹوٹے پھوٹے‘ شکستہ حال پرائمری سکول کا استاد قومی ہیرو نہیں‘ کسی پولیس مقابلے میں جان کی بازی ہارنے والا ڈائرکٹ حوالدار‘ کسی منہ زور شخص کے سامنے کلمہئ حق کہنے والا سرکاری ملازم‘ موت کے خوف کے باوجود پولیو کے قطرے پلانے والی لیڈی ہیلتھ ورکر‘ کوئی ایمان دار تاجر‘ کوئی پورا تولنے والا دکان دار‘ کوئی سماجی کارکن……کیا یہ سب قومی ہیرو نہیں …… ہمارا مسئلہ روپے پیسے نہیں‘ اخلاقیات ہے۔ اقدار کا افلاس ہر افلاس سے بڑا ہوتا ہے۔ہم مال اور دولت‘ مقام اور مرتبہ‘ دھونس اور دھاندلی کی دنیا سے کب نکلیں گے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول کب ختم ہوگا۔ آج کے دور میں ہیرو وہ ہے جو رزقِ حلال کماتا ہے۔جو خون پسینہ ایک کرکے اپنا پیٹ پالتا ہے۔ جو امانت‘ دیانت اور صداقت کا علم اٹھاتا ہے جو قانون کو باندی سمجھ کر اس کا تمسخر نہیں اڑاتا۔ ہم امریکا اور یورپ کو برُا کہتے ہیں لیکن وہاں ایک عام کھلاڑی تو کیا وزیراعظم بھی ٹریفک سگنل توڑے تو قانون کے کٹہرے میں پہنچ جاتا ہے اور ایک ہم ہیں کہ قانون توڑنا باعث ِ عزت سمجھتے ہیں۔ ہمارے رعب‘ دبد بے اورطاقت کا اظہار ہی اس امر سے ہوتا ہے کہ ہم قانون کا کس قدر مذاق اڑاسکتے ہیں۔ ”کیا تمھیں علم نہیں میں کون ہوں“۔ یہ وہ فقرہ ہے جو ہر روز کسی نہ کسی چوراہے‘ دفتر‘ ہسپتال یا پولیس اسٹیشن میں سننے کو ملتا ہے۔ہمارا غصے سے بھرپور‘ رعونت زدہ لہجہ اور بے چارہ سرکاری ملازم۔ وہ ہر روز سرجھکائے قانون اور قاعدے کے پرخچے اڑتے ہوئے دیکھتا ہے۔ اسے بڑے صاحب کا فون آتا ہے اور بہت جلد علم ہو جاتا ہے کہ جسے ا س نے مجرم سمجھ کر پکڑا تھا وہ کون ہے۔ فون سنتے ہی قانون سے محبت کی ہر کونپل مرجھا جاتی ہے۔ ”تمھیں علم نہیں میں کون ہوں“۔ کاش یہ سوال کبھی ہم خود سے بھی پوچھیں۔ سارا غرور خاک میں مل جائے گا۔سارا زعم پاش پاش ہو جائے گا۔ کاش کوئی دردمند شخص اس کھلاڑی کو بتائے کہ صاحب! آج کے دور میں قومی ہیرو وہ نہیں جو کشتوں کے پشتے لگا دے۔ آج کا ہیرو وہ ہے جو قانون کی پیروی کرے۔ عزت اور وقار کے ساتھ جیے اور دوسروں کے ساتھ وہی سلوک کرے جیسا سلوک‘ وہ چاہتا ہے کہ‘ خود اس کے ساتھ کیا جائے۔ایک کھلاڑی اورپولیس وارڈن کی یہ چپقلش اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ آیئے ایک بار سرجوڑیں‘ مل کر بیٹھیں اور پھر سے غور کریں کہ قومی ہیرو کون ہوتا ہے۔
”بُلھیاکی جانا ں میں کون!“