03 Apr

Sher-e-Bangal aur Pakistani Jhande-شیر بنگال سٹیڈیم اور پاکستانی جھنڈے

شیر بنگال سٹیڈیم‘ ڈھاکہ‘ بنگلا دیش۔ پاکستان کا جھنڈا لہرانے والوں میں کچھ بہاری بھی شامل ہیں۔ان کو خراجِ تحسین پیش کرنے سے پہلے ایک پرانی تحریرکا ایک صفحہ۔
”ڈھاکہ میں وہ میرا آخری روز تھا۔ دس دنوں کی شہرنوردی کے نتیجہ میں کیا حاصل ہوا۔ایک اضطراب اور پھر پرسکون خاموشی۔ جیسے کوئی بچہ روتے روتے نیند کی آغوش میں پہنچ جائے۔ ”میں آج بہاری کیمپ جانا چاہتا ہوں“۔میں نے اپنے میزبان سے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ امین الحق جو میرا مزاج آشنا ہو چلا تھا یہ فرمائش سن کے بے چین ہونے لگا۔ ”وہاں جاکے دل کا بوجھ اور بڑھ جائے گا“۔ مجھے پہلے سے اندازہ تھا کہ امین الحق یہی کہے گا۔لیکن میں اس کے باوجود وہاں جانے پہ مصر تھا۔
محمد پورہ کا مہاجر کیمپ اور یہاں محصور بہاری مجھے تاریخ کے کٹہرے میں لے گئے۔میرے کانوں میں قائداعظم کا یہ فرمان گونجنے لگا کہ پاکستان اسی روزبن گیا تھا جب برصغیر میں پہلا شخص مسلمان ہوا۔بابائے قوم نے کہا تھا کہ پاکستان محض جغرافیائی حدود کا نام نہیں۔یہ تو ایک تصورہے۔ ایک خیال۔ ایک خواب۔ ایک نظریہ ئ حیات۔ جس نے اس نظریئے کو اپنایا وہ پاکستانی بن گیا۔ 1947 تو بس ایک سنگِ میل تھا۔ جب چاروں اطراف سے لوگ اپنا اپنا گھربار چھوڑ کر نکلے اور پھر محبت اور اخوت کی ایک وحدت میں ڈھل گئے۔ ان لوگوں میں بہار کے رہنے والے بھی تھے۔بدقسمت بہاری‘ جو بنگال میں آبسے۔لیکن تیئس سال گذرنے کے بعد بنگال کی سر زمین نے انہیں اپنانے سے انکار کر دیا۔گویا پاکستان سے محبت کی سزا انہیں دوبار ملی۔ پہلی بار اس وقت جب وہ ہندوستان سے ہجرت پہ مجبور ہوئے اور دوسری بار اس وقت جب انہوں نے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ پہلی سزا تو ختم ہو گئی لیکن دوسری سزا اس قدر طویل ہے کہ آج بھی ختم نہیں ہوئی۔یہ دو لاکھ سے زیادہ لوگ سزا کے طور پر ڈھاکہ کے مہاجر کیمپ میں محبوس ہیں۔ نہ گھر بار‘ نہ کاروبا ر‘ نہ مستقبل۔ بنگلا دیش میں یہ ایک بوجھ ہیں اور پاکستان میں کوئی انہیں قبول نہیں کرتا۔ جس وطن کی تشکیل میں ان کا لہو شامل ہے اس کی مٹی پہ ان کا کوئی استحقاق نہیں۔
یہ بھی تاریخ کا ہی ایک ستم ہے کہ پاکستان میں تیس لاکھ افراد افغانستان سے آکر بس چکے ہیں۔ انہیں یہاں بیس پچیس سال سے زیادہ عرصہ گذر گیا۔ پچیس لاکھ پختون ٗ دو لاکھ تاجک ٗ ستر ہزار ازبک ٗ ساٹھ ہزار ترک ٗ چالیس ہزار ہزاروی ٗ باون ہزار بلوچ۔ ان مہاجرین میں سے ساٹھ فیصد سرحد اور قبائلی علاقوں میں اور باقی چالیس فیصد ملک کے تینوں صوبوں میں رہتے ہیں۔ ان کے یہاں گھر بن چکے۔ شادیاں یہاں ہو چکیں۔ان میں سے اسی فیصد واپس جانا ہی نہیں چاہتے۔ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو پاکستان کے آئین اور پاکستان کی حدود کو بھی قبول نہیں کرتے۔ کیا ان تیس لاکھ میں وہ دو لاکھ شامل نہیں ہو سکتے جو پیدائش کے اعتبار سے بھی پاکستانی ہیں۔ جو اردو بولتے ہیں۔ جو قائداعظم کو بابائے قوم کہتے ہیں۔جو لیاقت علی کو قائد ملت کا نام دیتے ہیں۔ وہ بدقسمت جو آج بھی دو قومی نظریہ کے شیدائی ہیں۔ جنہوں نے اس وطن کے لئے ایک بار نہیں دوبار لٹنا گوارا کیا ہے۔ مجھے ان سیاسی عوامل کی خبر نہیں جو ان لٹے پھٹے لوگوں کی پاکستان آمد کی راہ میں حائل ہیں لیکن میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ میرے بزرگوں کو اس وطن کی شہریت اس لئے نہیں ملی کہ وہ پنجابی ٗ سندھی ٗ بلوچی یا پٹھان تھے۔ انھیں یہ وطن اس لئے ملا کہ انھوں نے ایک مخصوص نظریہئ حیات کا علم بلند کیا تھا۔ جو شخص‘ اس نظریہ اور اس نظریہ کے تحت بننے والے آئین کو قبول کرتا ہے وہ پاکستانی ہے اور پاکستان کے چپہ چپہ پر اس کا استحقاق ہے۔
جب میں امین الحق کو ساتھ لئے محمد پورہ کیمپ پہنچا تو یہ سوال وہاں لکھے ہوئے نظر آئے۔تعفن ٗ غلاظت‘ گندگی۔ پاکستان کے یہ فرزند پینتیس سال سے اقوام متحدہ کے ٹکڑوں پہ پل رہے ہیں۔ قومیں دولت نہ ہونے سے نہیں عزت اور وقار نہ ہونے سے غریب ہوتی ہیں۔ مجھے یوں لگا جیسے میں واقعی غریب قوم کا فرزند ہوں۔
ہم کچھ سیاسی مجبوریوں کی بناء پر ان لوگوں کو اپنانے سے منکر ہو گئے۔ ہمارا یہ انکار اصولوں کی نفی ہے۔ محمد پورہ کے کیمپ میں دو لاکھ افراد ہم سے یہی سوال کرتے ہیں۔ پختون ٗ تاجک ٗ ازبک ٗ ترک ٗ بلوچ ٗ ہزاروی۔ کیا دو لاکھ بہاری ان تیس لاکھ مہاجرین کا حصہ نہیں بن سکتے۔ ایسا ہونا ممکن نہیں توکیا ہمیں ”ایک نظریاتی مملکت“ کہلوانے کا حق ہے۔بہاری کیمپ کے بدحال مکینوں نے یہ بات کہی اورخاموش ہو گئے۔ لوگ خاموش ہو جاتے ہیں‘ تاریخ خاموش نہیں ہوتی۔شیر بنگال سٹیڈیم میں پاکستان کا جھنڈا لہرانے والوں میں یہ لوگ بھی شامل ہیں۔ہمیں ان کا شکر گذار ہونا چاہیے کہ انھوں نے اس پاکستان کو زندہ رکھا جس پر ہم نے سولہ دسمبر 1971 کو خطِ تنسیخ کھینچ دیا تھا۔