29 Aug

Each One Teach One

پہاڑ کا سفر پہلے قدم سے شروع ہوتا ہے۔
”دو کروڑ بچے“نامی کالم کی اشاعت کے بعد کئی خط اور پیغامات ملے۔ بہت سے لوگ افسردہ ہوئے۔ بہت سے دل گرفتہ اورکچھ اشک بار بھی۔کچھ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ چاہے کچھ بھی ہو وہ ان دو کروڑ بچوں کو سکول لے کے جائیں گے۔عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی۔زندگی صرف سوچنے کا نہیں عمل کا نام ہے۔ ایک صاحب نے کہا ”شاید یہ کالم ایک تحریک بن جائے“۔ ایک صاحب نے کہا ”میرے پاس ایک حل ہے۔ اگر ہم میں سے ہر شخص ایک شخص کوپڑھنا لکھنا سکھا دے تو ہم شرح ِ خواندگی کودوگنا کرسکتے ہیں“۔وہ صاحب ایک لمحہ کے لیے خاموش ہوئے اور کچھ توقف کے بعد پھر بولے۔”جنگِ بدر میں فتح کے بعد ہر قیدی کو کہا گیا کہ ہمارے بچوں کو پڑھنا سکھا دو ہم تمھیں آزاد کردیں گے۔پڑھانے کایہ کام اس روایت کی پیروی بھی ہوگا جس کا آغاز اللہ کے رسول ؐ نے کیا۔ اچھے اصول ہر عہد اورہر زمانے کے لیے ہیں۔پاکستان میں اکسٹھ ملین لوگ خواندہ ہیں اور تقریباً اتنے ہی ناخواندہ۔ اگر ہر خواندہ شخص یہ فیصلہ کرلے کہ میں دوسال کے اندر اندر ایک ان پڑھ کو پڑھنا لکھنا سکھا دوں گاتو ہماری ساری آبادی خواندگی کی منزل طے کرسکتی ہے۔ ستر برس میں جو کام نہ ہوا دو برس میں ہوسکتا ہے۔کیا ہماری نظر ارد گرد نہیں جاتی؟ جہالت ہمیں برباد کرنے پر تلے ہوئی ہے۔دھوکہ‘ فریب‘ دہشت گردی۔ نہ تحمل‘ نہ برداشت۔ بس تعصب ہی تعصب۔ ا یسے میں کوئی ہے جو اپنے حصے کی آگ بجھائے۔سو فیصد شرح خواندگی کا آسان راستہ“۔ ان صاحب نے بہت درد مندی سے کہا۔
قومیں یوں ہی نہیں بنتیں۔ تبدیلی یوں ہی نہیں آتی۔ یہ سچا واقعہ ہے یا محض استعارہ کہ کئی ہزار سال پہلے جب حضرت ابراہیم ؑ کو شعلوں میں پھینکا گیا تو ایک ابابیل اپنی چونچ میں پانی کا قطرہ لاکر ان پر پھینکنے لگی۔ کسی نے کہا یہ آگ ایک قطرے سے بجھنے والی نہیں۔”مجھے اس سے کچھ غرض نہیں۔ میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ میرا نام آگ بجھانے والوں کی فہرست میں لکھ دیا جائے“۔ اگر یہ محض استعارہ بھی ہے تو بھی عمل کی راہ دکھاتا ہے۔ آیئے ہم بھی ایک قطرہ تلاش کریں۔ اپنے اردگر د نظر دوڑائیں۔ کوئی ان پڑھ‘ علم سے ناآشنا‘ روشنی سے دور۔ ہمارااپنا ڈرائیور‘ باورچی‘ چوکیدار یا ان کابچہ۔ آیئے ہم اپنے حصے کا ایک شخص ڈھونڈ کر اسے بتائیں کہ روشنی اور اندھیرے میں کیا فرق ہوتا ہے۔ اس شخص کا رشتہ کاغذ اورقلم سے جوڑیں۔ وہ شخص شاید ہمارے لیے نجات کا ذریعہ بن جائے۔ بعض لوگوں کا وقت قیمتی ہو گا۔ وہ خود یہ نہ کرسکیں تو کسی شخص کوکہہ دیں کہ مجھ سے معاوضہ لے لو اور میری بجائے تم اسے پڑھادو۔ میں تو بس اپنے نبی ؐ کے حکم پر عمل چاہتا ہوں۔
ایک صاحب نے کہا ”اس تحریک کا نام “Each One Teach One” رکھ دیا جائے اوریہ بھی کہ حکومتوں کو اس کام سے الگ ہی رہنے دیں۔ وہ تو دعوے کرتی رہتی ہیں۔ ان میں سے کچھ دعوے پورے ہو جائیں گے کچھ فردا پہ ٹال دئیے جائیں گے لیکن ہمیں اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہے۔ شاید وہ وقت بہت دور نہیں جب ہم سے پوچھا جائے گا کہ تمھارا ہمسایہ بھوکا تھا تو ایسا کیوں تھا۔ پیاسا تھا تو ایسا کیوں تھا۔ اسے علم کی روشنی نہ مل سکی تو ایسا کیوں ہوا۔ کیا ہم اس سوال کے لیے تیار ہیں۔
نیشنل کمیشن برائے ہیومن ڈویلپمنٹ‘ قومی سطح کا ایک ادارہ جس کا مقصد انسانی وسائل کی بہتری اور تعلیم کا فروغ ہے۔ اس ادارے کے پاس ایک ایسی حکمتِ عملی بھی موجود ہے جو خواندگی کے اس خواب کو شرمندہ ئ تعبیرکرسکے۔ آئیں رونا دھونا چھوڑیں۔دوسروں پہ الزام نہ لگائیں۔ اپنے اندر جھانکیں اور تیشہئ عمل اٹھالیں۔ خود سے کسی کو پڑھانا شروع کردیں۔ اگر خود سے پڑھانے کا وقت نہیں رکھتے تو اپنے حصے کی رقم اس ادارے کو دے دیں۔ دوسال بعد یہ ادارہ ایک ان پڑھ شخص کے پڑھے لکھے ہونے کا سر ٹیفکیٹ آپ کو بھجوا دے گا۔ محترمہ روزینہ عالم نے یہ کہا اور میری طرف دیکھنے لگیں۔ روزینہ عالم اس ادارے کی سربراہ ہیں۔ میں نے اس روز ان سے وعدہ کرلیا کہ ان کا پیغام لوگوں تک پہنچاؤں گا اور پھر حکومتِ پنجاب کے محکمہ نان فارمل ایجوکیشن کا جواں فکر سیکرٹری‘ ڈاکٹر نوید احمد۔دردمند‘ دھن کا پکا‘ جو ہر روز نئے نئے خواب دیکھتاہے۔ اسے بھی جنون ہے کہ ملک سے جہالت کا خاتمہ ہو۔اگر ہم ان دونوں اداروں کی مدد کریں تو واقعی ایک تحریک شروع ہوسکتی ہے۔جہالت کا داغ مٹ سکتا ہے۔
“Each One Teach One” اچھا نام ہے لیکن نام میں کیا رکھا ہے۔ اصل شے تو کام ہے۔ آئیں ہم سب اپنے اپنے حصے کاکام کردکھائیں۔ہم میں سے ہر شخص کو صرف ایک شخص کو پڑھانا ہے۔ تاریخ خود بخود بن جائے گی۔ کب تک ہم جہالت کے اندھیروں میں بھٹکیں گے۔کب تک یہ دو کروڑ بچے ہمارے ضمیر پہ بوجھ بنیں گے۔ کب تک۔