02 Aug

Eid Ki Khushian-عید کی خوشیاں

نصف رات گزر چکی تھی۔ کئی بار ہم خود سونا نہیں چاہتے اور کئی بار کوئی اور سونے نہیں دیتا۔ یہ تو یوں بھی چاند رات تھی۔ ہر طرف خوشیاں‘ شادیانے‘ شور شرابا۔ ایسے میں تو نیند اور بھی دور ہو گئی۔ مجھے ایک کہانی یاد آنے لگی۔ بہت دور ایک نیم تاریک شہر کی نیم تاریک گلیاں‘ ان گلیوں میں رہنے والی ایک بہادر عورت جس کی یاد کسی ستارے سے کم نہیں۔شاید وہ عورت اوراس کی جدوجہد مجھے اس لیے بھی یاد آرہی ہے کہ کل عید ہے۔
بشریٰ نامی اس عورت کا تین مرلے کا اپنا گھر ہے جہاں وہ‘ اس کا میاں اور بچے‘ سب مل جل کر رہتے تھے‘خوش و خرم۔اس کا خاوند سبزی منڈی میں کام کرتا اور دس ٗ پندرہ ہزار ہر مہینے کما لیتا۔ بچے سکول جاتے اور وہ گھر کا کام کاج سنبھالتی۔ اس کا کہنا تھا کہ ان کا شمار محلے کے خوش حال گھرانوں میں ہوتا ٗ پھر اچانک ایک روز بیماری نے اس کے گھر کا راستہ دیکھا اور اس کے میاں پہ فالج کا حملہ ہوا۔ اس حملے کے بعد اس کا نچلا دھڑ مکمل بے کار ہوگیا۔ ہر طرف ایک قیامت سی ٹوٹ پڑی۔ نہ وہ چل پھر سکتا نہ اٹھ سکتا تھا۔ گھر میں جو کچھ تھا‘ علاج پہ لگ گیا۔ صرف دوکمروں کا مکان باقی رہ گیا۔ کوئی رشتے دار ساتھ دینے کے قابل نہ تھا۔ وہ خود بھی پڑھی لکھی نہ تھی کہ کہیں نوکری کر سکتی۔ بہت سوچا ٗ بھاگ دوڑ بھی کی لیکن کوئی بات نہ بنی۔ کھانا ٗ پینا ٗ خاوند کی ادویات‘ گھر کا بل‘ وہ کہاں جائے ٗ کس کے دَر پہ دستک دے۔ بے بسی اور محرومی نے اسے اک دشتِ بے کراں میں لاپھینکا۔ اسی کش مکش میں وہ بلاسود قرضوں کے ادارے اخوت کے پاس پہنچی۔ وہ دفتر میں بیٹھ کر ان لوگوں کو دیکھتی رہی جو وہاں قرضہ لینے آتے‘ اپنی مشکلات بتاتے اور پھر کوئی نہ کوئی حل پاکر مطمئن ہوکے واپس چلے جاتے۔ اسے بھی راستہ نظر آگیا۔ پندرہ ہزار کا قرضہ ٗ جس میں سے آٹھ ہزار کی ریڑھی اور سات ہزار کی سبزی ٗ پھل اور ترازو۔ یہ سب کچھ اسے سبزی منڈی سے مل گیا۔ سبزی منڈی اس کے گھر کے قریب ہی واقع تھی۔ اب وہ ہر روز منڈی سے کچھ سبزی‘ کچھ پھل لاتی ہے‘ انھیں ریڑھی پہ رکھتی ہے اور پھر اپنے خاوند کو ریڑھی پہ سوار کر کے ریڑھی کو گھر کے پاس واقع بازار میں لے جاتی ہے۔ باقی کام خاوند کرتا ہے۔ اس کا نچلا دھڑ معذور ہے تو کیا ہوا ٗ ہاتھ تو سلامت ہیں۔ وہ ریڑھی پہ بیٹھے بیٹھے سبزی اور پھل بیچتا ہے۔ لوگ اچھی قیمت دے دیتے ہیں۔ سہ پہر تک ریڑھی خالی ہو جاتی ہے۔ بشریٰ واپس آکر ریڑھی دھکیلتی ہوئی گھر لے جاتی ہے۔ ہر روز پانچ سے سات سو روپے بچ جاتے ہیں۔ دو ٗ تین ماہ کے اندر ہی سارے معاملات بہتر ہو نے لگے۔ بچے پھر سے سکول پہنچ گئے۔ ادویات بھی مل گئیں۔ گھر کا خرچہ بھی نکلنے لگا۔ وہ ہر روز جب معذور خاوند کو ریڑھی پر بٹھا کر باہر نکلتی ہے تو ایک نیا عزم اس کے ہم رکاب ہوتا ہے۔ اسے سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ اس نے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ خیرات نہیں مانگی۔”کیا یہ معمولی بات ہے“۔ جب اس نے یہ بات مجھے کہی تو میں حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔ اسے یقین ہے کہ ایک روز اس کے خاوند کا علاج بھی ہو جائے گا۔ ”اب مجھے راستہ مل گیا ہے۔“ اس کا اعتماد اور حوصلہ قابلِ تعریف تھا۔میرے لیے یہ کہانی بھی عید ہی کی طرح تھی۔
زندگی کی حقیقت سے کشید کی ہوئی یہ کہانی‘ ایسی کہانیاں ہر گلی محلے میں بکھری پڑی ہیں۔ افسوس! ہم کہانیاں پڑھتے ہی نہیں۔ ہم اپنی ذات سے باہر نکلنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ ہم جانتے ہی نہیں کہ کوئی کتنا مجبور ہے۔ وقت کے گرداب میں کس طرح ڈوب رہا ہے۔شاید وہ وقت بہت دور نہیں جب ہم سے پوچھا جائے گا کہ ہماراہم سایہ کس حال میں تھا۔ بھوکا تھا تو کیوں؟ اداس اور غم زدہ تھا تو کیوں؟ محبت اور توجہ کا متلاشی تھا تو کیوں؟ خوش حال بستیوں کے ساتھ جو کچی بستی تھی‘ وہاں زندگی کیسے بسر ہو رہی تھی۔ شہر سے بہت دور نیم تاریک شہر کی نیم تاریک گلیاں‘ان گلیوں میں رہنے والی ایک بہادر عورت جس کی یاد کسی ستارے سے کم نہیں۔ رات کا باقی حصہ اتنا بوجھل نہ تھا۔عید بھی اتنی بوجھل نہیں گذری۔