24 Apr

Gordan Brown Aur M. Sarwar Aur Chad Khwab -گورڈن براؤن‘ محمد سرور اورچند خواب

میں اس روز تقریریں سنتا رہا اور خواب بنتا رہا۔
اس دن ہر شخص تعلیم کی بات کر رہا تھا۔ تعلیم زیور ہے‘ تعلیم روشنی ہے‘ تعلیم ترقی ہے۔ تعلیم انسانیت کی طرف بلاتی ہے۔ علم ہی آدمی کو انسان بنا سکتا ہے۔ کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہیں۔ علم ہی فرمانروائی ہے اورعلم ہی تاج وتخت۔ علم والوں نے ہی زہر پیا۔ علم والے ہی سولی پہ چڑھے۔دنیا کا ہر معاشر ہ تعلیم کے فروغ کے لیے کوشاں ہے۔ تہذیب‘ شا ئستگی اور اخلاق‘ ان کا تعلق بھی علم سے ہے۔ احساس اور مروت کا چشمہ بھی یہیں سے پھوٹتا ہے۔ مختلف مقررین ایسی ہی باتیں کررہے تھے۔ ہر لفظ دردمندی کا پیکر‘ ہر اشارہ اخلاص کا اشارہ۔ وزیر ِاعظم‘ وزیر ِخزانہ‘ وزیر ِتعلیم‘ہر صوبائی حکومت کا ایک وزیر‘ دو گورنر اورپھر برطانیہ کا وزیراعظم۔ اس تقریب میں بین الاقوامی ڈونر ایجنسیاں بھی تھیں انھوں نے وسائل کی حامی بھری۔
گورڈن براؤن کی تقریر نے لوگوں کو مسحور کردیا۔ پاکستان تعلیم سے دور کیوں ہے‘ لاکھوں بچے سکول کیوں نہیں جاتے‘ ان کے ہاتھ میں قلم کیوں نہیں‘ استاد کیوں غیر حاضر رہتے ہیں‘طالبات سکول کیوں نہیں آتیں‘ تعلیم کامعیار پست کیوں ہوتا جارہا ہے“۔یہ سب سوال گورڈن براؤن نے پوچھے۔سچ تو یہ ہے کہ یہ سوال ہمیں پوچھنے چاہئیں۔ پاکستان میں اگر جہالت ہے تو یہ ہمارا مسئلہ ہے۔ تعصب کا اندھیرا ہے تو ہمیں دور کرنا ہے۔”تعلیم ایک نامکمل ایجنڈا“ کے عنوان سے یہ بین الاقوامی کانفرنس گورنر پنجاب محمد سرور کی کاوش کا نتیجہ تھی۔جن کے کہنے پہ گورڈن براؤن نے پاکستان کا سفر کیا اور کئی سو ملین پونڈاکٹھا کرنے کا عندیہ بھی دیا۔ ”وسائل کی کمی سے فکرمند نہ ہوں۔ دنیا آپ کی مدد کے لیے کمر بستہ ہے“۔ گورڈن براؤن کے یہ لفظ سن کے ہال میں دیر تک تالیاں بجتی رہیں۔”کیا ہم خود بھی اپنی مدد کے لیے کمربستہ ہیں“۔ میرے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک دوست نے سرگوشی کی۔ ا س سے پہلے وزیر ِ اعظم پاکستان نے بھی ایسی ہی گفت گو کی۔ درد اور اخلاص۔ انھوں نے ایک نئی حکمت عملی کا اعلان بھی کیا۔ تعلیم کے لیے جی ڈی پی کا حصہ دگنا کرنے کی نوید۔ شاید یہ اس نشست کی بہترین خبر تھی۔ تعلیم کے وزیر بلیغ الرحمان کی باتیں بھی ان کے عزم کا اظہار تھیں۔
ہمیشہ کی طرح کچھ مایوس لوگ بھی تھے۔”ہم یہ باتیں‘ برس ہا برس سے سن رہے ہیں“۔ایک سابق سول سرونٹ نے میرا ہاتھ تھا م کے کہا۔”لیکن ہمارا ارادہ عمل کی راہ نہیں دیکھتا۔گورڈن براؤن کے آبااگر ہمیں غلام نہ بناتے تو آج ہم اس حال میں نہ ہوتے“۔ ایک اور صاحب نے آزردگی سے کہا۔”کسی اور کو الزام نہ دیں۔ ہمارے زوال کی وجہ انگریز کی طاقت نہیں ہماری اپنی جہالت اور کم علمی تھی“۔ ایک دل چسپ بحث چھڑ گئی۔ گورڈن براؤن لوگوں میں گھل مل گیا۔ کل یہ وزیر ِاعظم تھا‘ آج یہ تعلیم کے فروغ کے لیے کوشاں ہے۔ اقوام متحدہ کا خصوصی نمایندہ۔ جنون کچھ لوگوں کا مقدر ہوتا ہے۔ کاش یہ ہمارا بھی مقدر بن جائے۔
گورڈن براؤن نے محمد سرور کا خصوصی تذکرہ کیا۔ ”برطانیہ ان کے جانے سے ایک بہترین شہری سے محروم ہو گیا لیکن پاکستان کو ایک اچھا رہ نما میسر آگیا“۔ اس نے محمد سرور کے ترک قومیت کے فیصلہ پر اظہار ِ خیال کیا۔ جی ایس پی پلس‘ صاف پانی کی مہم‘ اور اب تعلیم کے لیے جدوجہد۔ مجھے اس شخص کی تعریف کرنا چاہیے جو کبھی ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ایک دور افتادہ گاؤں کے ٹاٹ سکول میں پڑھتا تھا اور ہر روز دس کلومیٹر کا سفر طے کرکے سکول جاتا تھا۔ بھوک‘ پیاس اور آبلہ پائی۔ اس سفر میں اس نے جو خواب دیکھے وہ اسے برطانیہ لے گئے اور پھر وہ محنت کی سیڑھیاں طے کرتے ہوئے پاکستان کی نیک نامی میں اضافے کا باعث بنا۔یہاں تک کہ ایک روز دریائے ٹیمز کے کنارے برطانوی پارلیمنٹ کی تاریخی عمارت تک جاپہنچا۔ ایسے سیلف میڈ لوگوں کی مثال ضرور دینی چاہیے تاکہ لوگوں کواحساس ہو کہ زندگی شارٹ کٹ نہیں جہد ِ مسلسل ہے۔ لیکن پھر مجھے خیال آیا کہ اہلِ اقتدار کی تعریف سے لوگ شکوک میں مبتلا ہونے لگتے ہیں۔ آئیے ایک بار پھر تعلیم کی بات کریں۔”تعلیم زیور ہے‘ تعلیم روشنی ہے۔ پاکستان میں لاکھوں بچے سکول نہیں جاتے۔ ان کے ہاتھوں میں قلم نہیں“۔ یہ باتیں گورڈن براؤن ہی کیوں سوچتا ہے۔ ہم کیوں نہیں سوچتے۔ ہم‘ اٹھارہ کروڑ‘ جن کا جینا مرنا اس دھرتی سے وابستہ ہے۔
اتنے سارے لوگ جمع ہوں اور پھر بھی غریب کا مقدر نہ بدلے۔ میں تقریریں سنتا رہا اور خواب بنتا رہا۔