30 Jan

Happy Birthday

آج 29جنوری ہے۔
آج فرخ کی سال گرہ ہے۔ میرا سارابنک اکاؤنٹ کسی بھی ایسے تحفے کے لیے کم ہے جو اس کے قابل ہو۔ شفق‘ دھنک‘ مہتاب‘ گھٹائیں‘ تارے‘ نغمے‘ بجلی‘ پھول۔یہ سب اس کے لیے ہیں۔میں یہ سب کیسے خریدوں گا۔ ”اخوت کا سفر“ میں ایک صفحہ اس کے بارے میں لکھا تھا‘ دہی دہراتا ہوں:
”بہت سے لوگ اپنا ذکر کرنے سے منع کرتے ہیں۔فرخ کا بھی یہی کہنا ہے کہ ذکر نہ ہوتو بہتر ہے لیکن اس کا ذکر کیے بغیراخوت کی سرگزشت ادھوری رہے گی۔ اخوت کے لیے جتنے سجدے اس نے کیے‘ وہ شاید کسی اور کے مقدر میں نہیں۔ میں نے اس کے حصے کا سارا وقت اس دیوانگی کی نذر کردیا پھر بھی اسے کوئی شکایت‘ کوئی گلہ نہیں۔ سوائے اس کے کہ میں خود سے انصاف نہیں کرتا‘صحت کا خیال نہیں رکھتا۔ گھر دیر سے آتا ہوں۔ وہی چھوٹی چھوٹی شکایتیں جو زندگی کا حسن ہیں۔ کیا کھانا ہے‘کیا پینا ہے‘ڈاکٹر کے پاس کب جانا ہے‘دوا کتنی بار لینی ہے۔ فرخ کے سوا ان باتوں کی کسے خبر ہے۔ مجھے تو اپنے معالج اور دوا ؤں کا نام بھی یاد نہیں۔ ہر سال دو سال بعد چند دن پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں گزارنا پڑتے ہیں۔ اب تک چار عدد سٹنٹ پڑ چکے ہیں۔ بیماری کے لمحے نگاہوں کے سامنے آتے ہیں تو اس کی بے بسی یاد آتی ہے۔ دل پر حملہ ہو تو یوں لگتا ہے جیسے منوں بوجھ سینے پہ آ پڑا ہو‘ٹوٹتی ہوئی رگیں اور درد کی شدت۔
ایک شدید ٹیس سی اٹھتی ہے‘ ایمرجنسی‘ بھاگ دوڑ‘ ہیپارین‘ اینجیو گرافی‘ موت اور زندگی کی گہری کش مکش۔ ایک بار میں آئی سی یو میں داخل تھا۔ ایک عورت اپنے بچوں کے ساتھ ساری رات ہسپتال کے لان میں بیٹھی رہی۔ وہ دعا دینے آئی تھی۔ صبح ہونے پر وہ فرخ کے پاس پہنچی اور کہنے لگی۔”اصل طاقت دوا میں نہیں‘ دعا میں ہے۔“ مجھے یقین ہے‘ اس رات اسی عورت کی دعا قبول ہوئی تھی۔ مجھے تو اس جان کنی کی عادت ہو چلی ہے لیکن فرخ کے لیے یہ لمحے انتہائی صبر آزما ہوتے ہیں۔ وہ بھی ایک کڑا دن تھا جب میں نے اس سے کہا۔”میں سول سروس سے استعفا دینا چاہتا ہوں“۔ اس نے جواب میں کوئی ایسی بات نہ کی جو مجھے کم زور کرتی۔ لوگوں کے لیے یہ ایک غیرمعمولی واقعہ تھا لیکن اس کے لیے یہ ایک عام سی بات تھی۔ ”جو توکل کرتے ہیں خدا انھیں اکیلا نہیں چھوڑتا“۔ اس کی آنکھیں دیر تک یہ پیغام دیتی رہیں …… اس کا کہنا ہے کہ ذکر نہ ہوتو بہتر ہے لیکن اس کے ذکر کے بغیر یہ کہانی مکمل نہ ہوگی۔ اخوت کی جدوجہد میں اس کا بہت حصہ ہے۔ اس کا شمار اخوت کے گم نام سپاہیوں میں ہوتا ہے‘سراپا ایثار‘ سراپا توجہ‘سراپا محبت“۔
یہ ساری باتیں کافی نہیں۔ بچے‘ ماں‘ گھر‘ معاشرہ…… اس موضوع پر کچھ باتیں اور بھی ہیں جنھیں امریکا کی سابق خاتونِ اول نے زیادہ خوب صورتی سے بیان کیا:
“……Good marriages don’t just happen. They are a product of hard work… Your children are watching you and forming lasting opinions on love and marriage based on what they see in you. A successful marriage doesn’t require a big house, a perfect spouse, a million dollars or an expensive car. A successful marriage requires honesty
and selfless love… Pray for your spouse every day; in the morning, in the afternoon and at evening. Shield your spouse with prayers and don’t take your spouse for granted. You may end up regretting
after losing someone that meant so much to you……”
ہم ایک عجیب عہد میں زندہ ہیں۔ توڑ پھوڑ‘ شکست وریخت۔ ہم ایک دوسرے سے دور ہورہے ہیں۔ ہم نے یہ بھلا دیا کہ عورت ہی گھر کو یک جا رکھتی ہے۔ وہ چادر بھی ہے اور چار دیواری بھی۔ کوئی مرد کام یابی کی دہلیز پہ قدم نہیں رکھ سکتا اگر اس کے پیچھے عورت کی وفا نہ ہو۔ ہم وہ آنسو کیوں بھول جاتے ہیں جو وہ ہمارے لیے بہاتی ہے۔ ہم اس جھولی میں دکھ کیوں ڈال دیتے ہیں جو صرف ہمارے لیے پھیلتی ہے۔صبح شام‘ رات دن اور برس ہا برس۔
کسی نے کہا ہمارے معاشرہ میں بیوی کے سوا ہر شخص کی تعریف کی جاتی ہے۔ ”ہم موّحدہیں ہمارا کیش ہے ترکِ رسوم“……آیئے اس رسم کو بھی توڑتے ہیں اس خوب صورت شعر کے ساتھ
پہلے اک شخص میری ذات بنا
اور پھر پوری کائنات بنا
آج کا کالم ہر اس عورت کے نام ہے جو اینٹوں کے ڈھیر کو گھر بناتی ہے۔ہیپی برتھ ڈے۔