20 Mar

Harvard Ya Dhadhi Wala-ہارورڈ یا ڈھڈی والا

نذیر احمد وٹو ایک بے لوث سماجی رہنما ہے‘لو ک دانش کا پروردہ۔ اس نے کسی بڑے ادارے سے تعلیم حاصل نہیں کی لیکن پھر بھی وہ زندگی کی حقیقت کو سمجھ گیا۔ زندگی کے معنی آشکار ہوئے تو وہ خدمت کے راستہ پہ چل پڑا۔ پڑے لکھے لوگ اسے اجڈ اور گنوار کہہ کر مخاطب کرتے ہیں لیکن وہ ایسا ریشم ہے جس کی نرمی ایک زمانے پر بھاری ہے۔ نذیر وٹو نے 35 سال قبل انجمن بہبود آبادی نامی تنظیم کی بنیاد رکھی۔ یہ ایک غیر سیاسی تنظیم تھی جو اپنی مدد آپ کے اصولوں کے تحت کام کرتی ہے۔کچھ عرصہ بعد اس نے اختر حمیدخان کا نام سنا۔ کسی نے اس کے کان میں کہا ”اختر حمید خان پاکستان کا سب سے بڑا آدمی ہے“۔ نذیر وٹو بوریا بستر باندھ کرکراچی پہنچ گیا جہاں اختر حمید خان لوگوں کو خود انحصاری کا درس دیتے تھے۔نذیر وٹو نے کچھ دن اختر حمید خان کے پاس گذارے اور انھیں اپنا مرشد مان لیا۔ مرشد تزکیہ نفس بھی کرتا ہے اور تالیف ِ قلوب بھی۔مرشدکوئی ایسا راستہ دکھاتاہے جس پر چل کر انسان اپنی منزل تک پہنچنے میں کام یاب ہوجائے۔
مومن‘مومن کا آئینہ ہوتا ہے۔ نذیروٹو کو ایک آئینہ مل گیا اور اس نے خود سے اپنے نقش و نگار سنوارنا شروع کردیئے۔ اورنگی پائیلٹ پراجیکٹ اس کا مدرسہ تھا اور اختر حمید خان استاد۔ یہاں سے فیض یاب ہونے کے بعد اس نے فیصل آباد میں اسی طرح کے کام کا آغاز کردیا۔ صاف پانی کی فراہمی اور گندے پانی کی نکاسی‘ اس کے دو مقاصد تھے۔ اس نے لوگوں کو سمجھا یا کہ حکومت پہ انحصار کی بجائے اپنے زوربازو پر بھروسہ کرو۔ پھر اس نے کدال اٹھائی اور گلی کوچوں میں سیوریج بچھانے لگا۔ شہر کی بیسیوں گلیاں‘ لاکھوں فٹ سیوریج کی لمبی لائین اور صاف ستھرا پانی۔نذیروٹو نے ترقی کا ایک متبادل نظریہ پیش کیا۔اس کا کہنا تھا کہ لوگوں کو ترقی کے عمل میں شریک نہ کیا گیا تو کوئی بڑا کام کرنا ممکن نہیں۔ ترقی عام آدمی کی شرکت کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی۔ حکومتیں لوگوں کو بھکاری بنا دیتی ہیں اور بھکاری کبھی ترقی نہیں کرتے۔
”غربت سے نجات کا صرف ایک ہی راستہ ہے۔ انسان محنت اور ایثار کا عادی ہو جائے۔ اگر ہم اپنا فرض پہچان لیں تو حقوق خو دبخود ملنے لگیں گے“۔ نذیر وٹو کا کہنا ہے کہ اس نے یہ ساری باتیں اختر حمید خان سے سیکھیں۔”شروع شروع میں جب ہم نے اپنے مرشد سے کہا کہ ہم یہ کررہے ہیں‘وہ کررہے ہیں تو وہ مسکرا کے کہتا کہ کیا تم گدھے ہو جو سارا بوجھ اپنی پیٹھ پر لادنا چاہتے ہو۔ لوگوں کو اپنا کام خود کرنے دو۔ تمھارا کام ان کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے‘ ان کا کام کرنا نہیں۔ لوگوں کو راستہ دکھاؤ ان کی بیساکھی نہ بنو‘ بس ان کے راستے میں پڑی ہوئی رکاوٹیں ہٹادو۔ چلنے کی ذمہ داری ان کی اپنی ہے“۔ لوگ سیاست دانوں کے پاس جاتے ہیں کہ ہماری نالی بنادو‘ گلی تعمیر کردو۔سیاستدان مسکرا کے دیکھتا ہے اور ٹھیکیدارکو بلاتاہے۔ حکومت کے افسر پہنچ جاتے ہیں اور پھر سارے وسائل کسی کی جیب کا حصہ بن جاتے ہیں۔ جو کام حکومت دس لاکھ میں کرتی ہے لوگوں کی شرکت سے وہی کام ایک لاکھ میں ہوسکتا ہے۔
”چنگاپانی“ کے نام سے نذیروٹو نے بھلوال میں ایک اور انوکھا کام کرڈالا۔ کئی ہزار گھرانوں کو چوبیس گھنٹے صاف پانی کی فراہمی اور تمام تر اخراجات کی ذمہ داری بھی ان پر جو یہ پانی استعمال کرتے ہیں۔”جتنا پانی استعمال کروگے اتنا ہی خرچہ دینا پڑے گا“۔ اس اصول پر عمل کرنے کے بعد پانی کا استعمال بھی کم ہوا اور محصولات کی وصولی بھی نوے فیصدسے بڑھ گئی۔ حکومت نے گہرے کنویں‘ پانی کی ٹینکی اور چھ انچ موٹے پائپ کی ذمہ داری اٹھائی اور چھوٹے پائپ کمیونٹی نے لگائے۔ ہر گھر میں کنکشن لگ گیا اور لوگ اسی طرح میٹر دیکھ کر بل دینے لگے جیسے بجلی کا بل ادا کیا جاتا ہے۔مقامی افراد پہ مشتمل ایک کمیٹی شکایات کا ازالہ کرتی ہے اور ہر کنکشن میرٹ کے تحت جاری ہوتا ہے۔ نتیجہ کیا نکلا۔ کچھ ہی عرصہ میں پانی کا معیار بہتر ہوگیا‘ دستیابی یقینی بن گئی اور مالی بوجھ صارف نے بخوشی قبول کرلیا۔”ایسے کام کے لیے نذیر وٹو جیسے مخلص سماجی کارکن بھی درکار ہیں جو ہمارے درمیان نہیں “۔ ایک صاحب نے دل جلے انداز میں کہا۔”اگر کوئی معاشرہ ایسے لوگ فراہم نہیں کرسکتا تو پھر وہ ترقی بھی نہیں کرسکتا“۔ میں اس کے سوا اور کیا جواب دے سکتا تھا۔ایسے لوگ ہوں گے تو غربت کا بت پاش پاش ہوگا۔
نذیر وٹو اپنے باغیانہ خیالات کی وجہ سے حکومتی حلقوں میں مقبول نہ ہوسکا۔ غیر سرکاری تنظیمیں اور بڑے بڑے غیرسرکاری ادارے اس سے کترا کے گذر جاتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ جھوٹ نہیں بولتا۔ لگی لپٹی رکھے بغیر بات کرتا ہے۔ زمانہ ساز نہیں۔ اس کے آباؤ اجداد انگریزوں کے خلا ف جنگ ِ آزادی کا حصہ بنے۔یہ بغاوت اس کا ورثہ بھی ہے۔ ایک جاگیر دارانہ ماحول میں نذیر وٹو کی آواز کہاں تک گونج سکتی ہے لیکن اس کے باوجود وہ بولنے سے باز نہیں آتا۔ چراغ جلاتا رہتا ہے۔ اسے یقین ہے کہ ایسے بہت سے چراغ جلیں گے تو غربت کے اندھیرے دور ہوں گے۔ اجالوں کا سفر شروع ہوگا۔ میں جب بھی نذیر وٹو سے ملتا ہوں تو مجھے ایک حوصلہ ملتا ہے۔ ترقی کے فلسفہ کو سمجھنے کے لیے ہارورڈ جانا ضروری نہیں۔ اخلاص اور دردمندی ہوتو زندگی خود بھی راستہ بتا دیتی ہے۔نذیر وٹو نے زندگی کی حقیقت کو”ڈھڈی والا“ میں بیٹھ کر سمجھ لیالیکن ہم بڑے شہروں میں رہ کر بھی اسے نہ سمجھ پائے۔