22 Aug

Hum Sub Ghareeb Hain-ہم سب غریب ہیں

جب تک پاکستان کا ایک شہری بھی غریب ہے‘ ہم سب غریب ہیں۔
گوادر کے ساحل پہ بیٹھا کوئی تھکاہارا مچھیرا‘ اندرون ِ سندھ کا کوئی بدنصیب ہاری‘ خیبر کا کوئی جفاکش مزدور‘ پنجاب کا کوئی نحیف ونزار کسان‘ گلگت بلتستان کا کوئی کمزور چرواہا…… وہ جو اقبال نے کہا‘ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا۔یہ سب ہمارے قومی وجود کا حصہ ہیں۔ ان میں سے ایک بھی غریب ہے تو ہم سب غریب ہیں۔ان میں سے ایک بھی خطِ افلاس سے نیچے ہے تو ہم سب مفلس ہیں۔
تدبر اور غورو فکرمومن کی میراث ہے۔ کیا ہم نہیں سوچتے کہ الگ وطن کا نعرہ کیوں لگا۔ کچھ لوگوں نے دیکھا کہ انھیں سیاسی‘ معاشی اور سماجی انصاف میسر نہیں۔ انھیں زندہ رہنے کا حق نہیں مل رہااور جب حق نہیں ملتا تو احتجاج ہوتا ہے۔ طویل جدوجہد‘ ان گنت قربانیاں‘ لہو کے چھینٹے اور لاشوں کے انبار۔آزادی کا راستہ کبھی بھی آسان نہ تھا۔کتنے ہی خواب ٹوٹتے ہیں پھر ایک خواب کو تعبیر ملتی ہے۔ ان گنت خواب‘ پتوں کی طرح بکھرے تو پاکستان بنا۔
ایک نیا وطن‘ ایک نیا جہان! چالیس فی صد لوگوں کو بہت کچھ میسر آگیا۔ سیاسی‘ سماجی‘ معاشی انصاف اور مذہبی آزادی۔خوشیاں‘ مسرتیں اور عافیت کدے لیکن ساٹھ فی صد افراد ابھی بھی زندگی کی بنیادی سہولتوں کو ترس رہے ہیں۔ اعداد و شمار تو گورکھ دھندا ہیں لیکن پھر بھی انھی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ آٹھ کروڑ افراد لکھنا پڑھنا نہیں جانتے۔ اڑھائی کروڑ بچے سکول سے باہر ہیں۔بارہ کروڑ افراد کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ تین کروڑ لوگوں کے گھر میں بیت الخلا نہیں۔یہ بھی تو ایک روز صبح کی امید میں گھر سے نکلے تھے لیکن ان میں سے کسی کا پاکستان نہیں بنا۔وضاحتیں بہت ہیں‘ حیل و حجت اور بہانے بازی میں توہم یکتا ٹھہرے۔
ایک وضاحت یہ ہے کہ سال ہا سال سے ہم حالت جنگ میں ہیں۔ سیاسی‘ سماجی‘ مذہبی اور دفاعی محاذ پر بحران ہی بحران۔ان بحرانوں کے باوجود ہم آگے بڑھتے رہے۔ ہماری کارکردگی بری سہی لیکن بھارت اور بنگلا دیش سے بری نہیں۔ یو این ڈی پی کے تازہ ترین اعدادو شمار کے مطابق ہمارے ہاں افلاس سے نیچے افراد کی تعداد ان دو ممالک سے کم ہے۔ لیکن اصل سوال پھر بھی وہیں کھڑا ہے۔ وہ ساٹھ فی صد افراد جو زندگی کی بنیادی سہولتوں کو ترستے ہیں کب اپنی منزل تک پہنچیں گے۔ ان کے خواب کب شرمندۂ تعبیر ہوں گے۔ ان کا پاکستان کب بنے گا۔وہ بھی تو ہمارے وجود کا حصہ ہیں۔گوادر کے ساحل پہ بیٹھا کوئی تھکاہارا مچھیرا‘ اندرون ِ سندھ کا کوئی بدنصیب ہاری‘ خیبر کا کوئی جفاکش مزدور‘ پنجاب کا کوئی نحیف ونزار کسان‘ گلگت بلتستان کا کوئی کمزور چرواہا……
غربت کے حوالے سے کچھ دکھ اور بھی ہیں۔ پاکستان کے بعض علاقے بدترین غربت کا شکار ہیں۔ تعلیم اور صحت تو دور کی بات۔وہاں بسنے والوں کو چند گز کپڑا بھی میسر نہیں۔اچھے دنوں کی امید بھی دل پہ دستک نہیں دیتی۔
بڑھ گئی ہے ناامیدی اس قدر
آرزو کی آرزو ہونے لگی
لق ودق صحرا‘ پتھریلے پہاڑ‘ زمستانی ہوائیں۔ نہ بدن پہ کپڑا نہ پاؤں میں جوتے۔ مستقل محرومی کا شکار۔ ہاری‘ کسان‘ مزدور۔بوڑھے‘ معذور‘ جیلوں میں بند قیدی‘ فٹ پاتھوں‘ بس کے اڈوں‘ریلوے اسٹیشنوں میں پناہ گزین معصوم بچے‘ لاوارث عورتیں‘ جنسی غلام‘ خانہ بدوش‘ خواجہ سرا‘ گھروں میں کام کرنے والے ملازم‘ ہوٹلوں پہ برتن دھونے والے چھوٹے اور مظلوم بچیاں جنھیں غیرت کے نام پہ موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔……یہ بھی پاکستانی ہیں۔خاک میں لتھڑے ہوئے‘ خون میں نہلائے ہوئے لیکن ہم ان کے وجود سے بے نیاز ہو چکے ہیں۔ گندگی کا ڈھیر کچھ دن تکلیف دیتا ہے لیکن پھر ہم اتنے عادی ہو جاتے ہیں کہ شکایت کا کوئی حرف بھی زبان پہ نہیں آتا۔تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا۔
اگست کا مہینہ خوشیوں کا مہینہ ہے۔ شادیانے‘ نفیریاں‘ بینڈ باجے‘ آتش بازی‘ قمقمے۔ لیکن یہ مہینہ اس جرم کی بازگشت بھی ہے کہ ابھی بہت سے لوگوں کا پاکستان نہیں بنا۔ امیر اور غریب کے درمیان بڑھتا ہوا فرق‘ دو طرح کے پاکستان‘ مذہبی‘ گروہی‘ لسانی اور طبقاتی کش مکش۔یہ کش مکش ہوگی تو بغاوت بھی ہوگی۔ مرکز گریز رحجانات کو بھی ہوا ملے گی۔ دشمن بھی غربت اور محرومی سے تقویت پاتا ہے۔ ریاست کی بات نہ کریں تو علاج بہت سادہ ہے۔ دولت مندوں کو اپنی دولت محفوظ بنانا ہے تو انھیں یہ دولت بانٹنا پڑے گی۔ خیرات سمجھ کے نہیں سماجی ذمہ داری اور فرض سمجھ کر۔ ورنہ کوئی بھوکا‘ ننگا‘ بیمار‘ ان پڑھ یہ دولت چھیننے پہ مجبور ہو جائے گا۔
آئیں! سجدہئ شکر بجا لائیں کہ برصغیر کی ایک بڑی آبادی کو ان کے خوابوں کا جہان مل گیا اور یہ بھی یاد رکھیں کہ کچھ لوگوں کے خواب ابھی پورے نہیں ہوئے۔ جب تک ایک شخص بھی غریب ہے ہم سب غریب ہیں۔