15 Aug

Justice (R) Amir Raza-جسٹس (ر) عامر رضا

امانت‘ دیانت اور صداقت کے پیکرجسٹس (ر) عامر رضا‘ صاحب ِ فراش ہیں۔
جسٹس عامر رضا کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو خدمت کا کام اللہ کی رضا کے لیے کرتے ہیں۔ ان کی شخصیت کی کئی جہتیں ہیں۔ وکیل‘ استاد‘ سماجی کارکن اورسابق جج……1962 میں وہ ہارورڈ یونی ورسٹی سے ایل ایل ایم کرکے واپس آئے اور وکالت کے ساتھ قانون کی تعلیم دینا شروع کی۔ 1964 میں وہ سول سروسز اکیڈمی میں بھی پڑھانے لگے۔قانون اور تعلیم۔ اس سفر میں نصف صدی گذر گئی۔یہ نصف صدی ان کی شرافت اور سچائی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ 1979میں وہ ہائی کورٹ کے جج بنے۔وہ ایک دیانت دار اور بہادر جج تھے۔ یوں تو ہر جج کو ایسا ہی ہونا چاہیے لیکن‘ حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے‘ اب یہ خوبیاں خال خال پائی جاتی ہیں۔ انھی دنوں ہماری تاریخ کے بدترین آمر ضیاء الحق نے ایک حکم صادر کیا جو کسی بہادر جج کے لیے قابل ِ قبول نہیں تھا۔ اس حکم کا لب لباب یہ تھا کہ عدالت جو فیصلہ کرے گی میری منشاء کے مطابق ہو گا۔ جسٹس (ر) عامر رضا کو یوں لگا جیسے ان کی آزادی سلب کرلی گئی ہو۔ جج نہ تو بکتا ہے نہ جھکتا ہے۔ جو بک جائے‘ جو جھک جائے جج نہیں ہوتا۔ لاہور ہائی کورٹ کے چار جج صاحبان نے سرنگوں ہونے سے انکار کردیا۔ ذکی الدین پال‘ آفتاب فرخ‘ خواجہ حبیب اللہ اور عامر رضا۔جسٹس عامر رضا کا کہنا تھا کہ میرے لیے یہ کوئی مشکل فیصلہ نہ تھا۔ اندھیرے اور اجالے میں تمیز بہت آسان ہوتی ہے۔اس کے لیے طویل سوچ بچاربھی درکار نہیں‘ بس جرات ِ رندانہ چاہیے۔
جسٹس عامر رضا کے فیصلوں کی گونج آج بھی لاہور ہائی کورٹ کے ایوانوں میں گونجتی ہے۔ وکیل‘ استاد اور جج…… عامر رضا‘اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہیں۔ خوش پوش‘ خوش فکر‘ خوش مزاج۔ان کی شخصیت کی ایک جہت سماجی خدمت ہے۔ جب وہ امریکا سے تعلیم مکمل کرکے واپس آئے تو ان کی ملاقات ایک اور بڑے انسان سے ہوئی جس نے ان کا رشتہ امین مکتب نامی ایک فلاحی ادارے سے جوڑدیا۔ اس شخص کا نام سید یعقوب شاہ تھا اور اس نے یہ ادارہ اپنی بیٹی کے لیے بنایا جو ذہنی مریض تھی۔ پچپن برس گذر گئے لیکن جسٹس عامر رضا کی اس ادارے سے وابستگی ابھی تک قائم ہے۔ کچھ باتیں‘ جو بظاہر اتفاق دکھائی دیتی ہیں‘ محض اتفاق نہیں ہوتیں۔ ان کے پیچھے کسی کا حکم ہوتا ہے۔ معذور بچوں کے اس ادارے سے ہزاروں بچوں کو علاج کی سہولت فراہم ہوئی۔ جسٹس عامر رضا کا اس ادارے سے جڑنا بھی کسی کی تدبیر تھی۔ دکھ اور درد کے وسیع سمندر میں کسی کو پیار اور محبت کا کوئی جزیرہ دیکھنا ہو تو وہ امین مکتب چلا آئے۔ امین مکتب کے دردیوار میں ایک عجیب سی روشنی ہے۔
جسٹس (ر) عامر رضا کا کہنا ہے کہ جو لوگ نعمتوں سے انکار کرتے ہیں انھیں چند لمحے معذور بچوں کے ساتھ گذارنے چاہئیں۔ ان کی مسکراہٹ انھیں زنجیر پہنا دے گی۔پاکستان میں آنکھوں کے سب سے بڑے ہسپتال کا نام LRBT ہے یعنی Hospital Layton Rehmatullah Benevolent Trust۔ لٹین اور رحمت اللہ دو دوست تھے جنہوں نے اس ہسپتال کی بنیاد رکھی۔جسٹس عامر رضا بھی روشنی پھیلانا چاہتے تھے۔ وہ بھی ہسپتال کے ٹرسٹی بن گئے۔ اس ٹرسٹ کے زیرِ اہتمام چاروں صوبوں میں آنکھوں کے انیس ہسپتال کام کرتے ہیں۔ ایک ارب روپے کا سالانہ بجٹ‘ ساڑھے تین لاکھ کے لگ بھگ مریضوں کا علاج۔ کیا کوئی یقین کرے گا کہ ان مریضوں سے کوئی فیس طلب نہیں کی جاتی۔کچھ لوگوں کے لیے مسیحائی ابھی کاروبار نہیں بنی۔
جسٹس عامر رضا اب وکالت بہت کم کرتے ہیں۔ ان کا زیادہ وقت خدمتِ خلق میں صرف ہوتا ہے۔ انھیں علم ہے کہ زندگی کااصل حسن کسی اور کے کام آنے میں ہے۔ پنجاب ویلفیئر ٹرسٹ فار ڈس ایبلڈ‘ پنجاب ایجوکیشنل انڈومنٹ فنڈ‘ پنجاب فوڈ اتھارٹی‘ رحمت علی میموریل ٹرسٹ……ان میں سے کئی کاموں میں مجھے ان کی رفاقت کا شرف حاصل ہے۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ ان کے قریب پہنچنا ممکن نہیں۔ وہ پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کے سربراہ بھی ہیں۔ یہی وہ ادارے ہیں جن کے افق سے ایک نیا منظر طلوع ہوگا۔ دردمند معاشرہ۔ اچھا پاکستان۔
جسٹس عامر رضا کو قائداعظم سے بھی بہت محبت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میں وکیل اس لیے بنا کہ قائداعظم وکیل تھے۔ ”آٹھ سال کی عمر میں مجھے قائداعظم سے ملنے کا شرف حاصل ہوا۔ میرے ساتھ میری والدہ بھی تھیں۔ قائداعظم سے ہونے والی یہ ملاقات میری سب سے خوب صورت یاد ہے۔ قائداعظم سچ بولتے تھے۔ جو شخص سچ بولتا ہے وہ ہمیشہ عروج پہ رہتا ہے۔ ہمارے زوال کی یہی وجہ ہے کہ ہم سچ نہیں بولتے“۔ جسٹس عامر رضا کی ساری زندگی سچائی کی کہانی ہے۔ انھوں نے خدمت کا جو بھی کام کیا اس کا معاوضہ نہیں مانگا۔ میں نے معاوضے والی بات کو مزید کریدا تو ان کے چہرے پہ ایک تحریر لکھی ہوئی نظرآئی۔ ”کیا نیکی کرکے کوئی دام مانگتا ہے“۔ ان کا شمار ہمارے عہد کے چند بڑے انسانوں میں ہوتا ہے۔ گفتار میں بھی کردار میں بھی۔ کچھ لوگوں کے نزدیک ان کی زندگی کا حاصل وہ ہزاروں طالب علم ہیں جنھیں انھوں نے قانون کی تعلیم دی۔ کچھ کہتے ہیں نہیں ان کا اصل سرمایہ وہ لمحہ ہے جب انھوں نے ایک غاصب حکمران کا حلف اٹھانے سے انکار کیا۔ کچھ لوگ رضاکاریت کے ان کاموں کو ترجیح دیتے ہیں جو انھوں نے مختلف اداروں کے ساتھ مل کے کیے……یہ سب باتیں درست ہیں۔ ایک شخص بہت سے دکھوں کا مداوا بھی تو بن سکتا ہے۔ اے خدا! ہمارے مقدر میں ایسے ہی کچھ اور نام لکھ دے۔ بہت دیر ہوگئی بارش نہیں ہوئی۔
یا خدا! جسٹس صاحب کو صحت دے اور زندگی دے۔
منہ پہ رکھ دامنِ گل روئیں گے مرغانِ چمن
ہر روش خاک اڑائے گی صبا میرے بعد