17 Oct

Khalid Amin Aur Indus University-خالد امین اور انڈس یونی ورسٹی

کام یابی کا راز کیا ہے؟
چند روز قبل مجھے انڈس یونی ورسٹی کراچی کے طلبا ء سے بات کرنے کا موقعہ ملا۔ موضوع تو اخوت ہی تھا۔ گفت گو کے بعد یونی ورسٹی کے چانسلر جناب خالد امین نے طلباء سے پوچھا کہ کیا آپ میں کوئی ایسا نوجوان ہے جو غربت کی وجہ سے کئی کئی دن بھوکا رہاہو؟ جب کوئی ہاتھ نہ اٹھا تو انھوں نے خود سے ہاتھ اٹھایا اور کہا میں نے غربت کے ایسے کئی دن دیکھے اور آج میں اس یونی ورسٹی کا چانسلر ہوں۔مجھے یہ اعتراف بہت اچھا لگا اورمیں تقریب کے بعد دیر تک خالد امین سے کام یابی کے راز سیکھتارہا۔
خالد امین کا کہنا ہے کہ”میں بمبئی میں پیدا ہوا‘ چنیوٹ میں پلابڑھا‘روہڑی اورسکھر میں تعلیم حاصل کی اور پھر کراچی آکر آباد ہوگیا۔میں نے ساری زندگی محنت کی۔ محنت کے سوا کچھ نہیں کیا۔ میرے بزرگ بھی محنت اور دیانت کے قائل تھے۔ ان کی زندگی جدوجہد کی خوب صورت تصویر پیش کرتی ہے۔ میں نے بھی مزدوری کی‘ سر پر کپڑا رکھ کر بیچا‘ کھڈی پہ کام کیا‘ ٹیکسی ڈرائیور بنا‘ ٹیوشن پڑھاتا رہا۔عمر کا ایک حصہ ٹوٹے پھوٹے گھروں میں بسر کیا۔ میں نے زندگی بھر کبھی چھٹی نہیں کی۔ ہمیشہ سولہ سے اٹھارہ گھنٹے کام کیا اور آج ستر سال کی عمر میں بھی بارہ گھنٹے کام کرتا ہوں۔ ایک وقت تھا جب اس شہر کا کوئی امیرآدمی مجھ سے ہاتھ ملانے کے لیے تیار نہ تھا۔ اس زمانے میں سائیکل تیس روپے کی مل جاتی تھی لیکن اتنی سکت نہ تھی کہ سائیکل خرید سکتا اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ گاڑیاں آگے پیچھے ہونے لگیں۔ گھر بار‘ آرام‘ سکون‘ شہرت‘ نام وری۔ وہی لوگ جو میری غربت دیکھ کر ہاتھ ملانے سے انکار کرتے‘ دوستی کا دعویٰ کرنے لگے۔یہ سب کیسے ممکن ہوا؟ اگر کوئی تدبر سے کام لے تو ہر راز منکشف ہو جاتا ہے۔سارے پرت کھلنے لگتے ہیں۔
سب سے پہلی بات یہ کہ میں نے زندگی اس خرگوش کی طرح نہیں گزاری جو کچھ دیر بھاگ کر سو جاتا ہے بلکہ اس کچھوے کا راستہ اپنایا جو مستقل مزاجی سے منزل کی طرف بڑھتا ہے اور بالآخر خرگوش کو مات دے دیتا ہے۔ میں پندرہ سال سے پچپن سال کی عمر تک محنت کرتا رہا۔ مزدوری‘ تجارت‘ صنعت ……کراچی کی شاید ہی کوئی جگہ ہو جہاں میری محنت کے نقوش رقم نہیں۔ جب میں ایسے لوگوں سے آگے بڑھ گیا جو میری غربت کا مذاق اڑاتے نہ تھکتے تو پھر مجھے لگا یہ مال و دولت تو بے معنی ہے۔ اصل دولت وہی ہے جو بانٹ دی جائے۔ آج میں دو یونی ورسٹیوں کا بانی ہوں‘ انڈس یونی ورسٹی اور شہید بے نظیر یونی ورسٹی۔ یہ ادارے کیسے وجود میں آئے۔ یہ کہانی بے حد طویل ہے۔ اس کہانی کا بھی ایک ہی عنوان ہے محنت‘ شب و روز محنت۔
میں اپنی کام یابی پر ہر طرح کے لوگوں کا مشکور ہوں۔ دوست بھی‘ دشمن بھی۔ مخالفوں کو دیکھ کر میں اپنے آپ سے عہد کرتا رہاکہ انھیں غلط ثابت کروں گا۔ گویا میرے مخالف بھی میرے لیے ایک مہمیز کی طرح تھے۔ میں نے زندگی میں کسی سے نفرت نہیں کی۔ زندگی منہ پھیرنے میں نہیں‘ گلے لگانے میں ہے۔ لوگ وقت ضائع کرتے ہیں تو مجھے افسوس ہوتا ہے۔وقت تو خدا کا سب سے بڑا عطیہ ہے۔ اس عطیہ سے مستفید ہونے کا ایک ہی طریقہ ہے۔ کام …… ا نسان کو صبح و شام کام کرنا چاہیے۔ خدا کا شکر ادا کرنے کا بھی یہی راستہ ہے۔ کوئی مجھ سے کہتا ہے کہ میں آرام کرنا چاہتا ہوں تو میرا جواب ہوتا ہے کہ آرام کے لیے اللہ نے قبربنائی ہے۔ چند روز اور ٹھہر جاؤ قبر کی آغوش میں آرام ہی آرام ہے۔
جو لوگ ہمیشہ خوش رہنا چاہیں ان کے لیے دو ہی راستے ہیں۔خدا سے محبت اور اس کی مخلوق کی خدمت۔ میں کوئی نئی بات نہیں بتارہا۔ دنیا کے سب سے بڑے انسان کا یہی وطیرہ رہا۔میری مراد اللہ کے رسول اور میرے نبی حضر ت محمد ؐ سے ہے۔ زندگی خوب سے خوب تر کی تلاش کا نام بھی ہے۔ جب میرے پاس سائیکل نہ تھی میں نے سائیکل کی خواہش کی۔ جب کار نہ تھی تو کار کی خواہش کی۔ اپنی خوشیوں کی کوئی انتہا نہیں لیکن ہمیں اپنی خوشیوں میں دوسروں کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ میری زندگی میں ایسے دن بھی آئے جب پیٹ بھر کے کھانا بھی نہیں ملتا تھا۔ میں اس وقت بھی خوش تھا اور آج کام یابی کی بلند منزل پہ پہنچ کر بھی خوش ہوں۔ پچاس ساٹھ برس پہلے میں بے سروسامانی کے عالم میں چنیوٹ سے نکل کر کراچی پہنچاتو میرے ساتھ صرف میرے خواب تھے۔ ٹھوکریں لگیں تو احساس ہوا کہ خواب صرف وہی نہیں ہوتے جو سوتے ہوئے دیکھے جائیں۔ خواب تو وہ ہیں جو سونے ہی نہ دیں۔ میں گہری نیند سے جاگ اٹھا اور پھر وہ سارے خواب تعبیر بن کر میرے اردگرد بکھر گئے۔دولت‘ مرتبہ‘ عزت‘ نیک نامی‘ اولاد…… خوشی کا تعلق دولت سے نہیں محنت سے ہے۔ خوشی توکل کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ خوشی اس دولت سے ملتی ہے جسے یہ کہہ کر خدا کی راہ میں بانٹ دیا جائے کہ یہ وہی تو ہے جو سب کچھ دیتا ہے ؎
جان دی‘ دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا“
خالد امین دولت اور شہرت میں میاں منشاء نہیں لیکن وہ پہلا چنیوٹی ہے جو دو یونی ورسٹیوں کا بانی ہے۔ کیا یہ کوئی معمولی بات ہے؟