27 Feb

Khushaal Waziristan Khushaal Pakistan(2)-(2) خوشحال وزیرستان‘ خوشحال پاکستان

تقریب کا آغاز کلام ِ پاک سے ہوا اور پھرقومی ترانہ۔ دل پہ دستک سی ہونے لگی۔ بارود‘ دھماکے‘ دھواں‘ خون۔ یہ کل کا وزیرستان تھا۔ آج ایک اور منظر تھا۔ مہمانوں کو خوش آمدید کہا گیا اور ایک ایک کرکے ان اقدامات کا تذکرہ ہوا جو ضربِ عضب کے بعد اٹھا ئے جاتے رہے۔ چھبیس ہزار ایکڑ پر مشتمل بنجر زمین کی کاشت‘ ستر سے زائد Tunnel فارمز‘ پولٹری فارمز‘ فری میڈیکل کیمپ‘ ٹیلی میڈیسن‘ ہسپتال اور سکولوں کی تعمیر‘ چار لاکھ سے زائد پودے‘ بجلی کی فراہمی‘ نئے ٹرانسفامر‘ ٹیلی فون ایکسچینج‘نورک‘ لکی‘ رزمک اور جاتی خیل میں ووکیشنل مراکز کی تعمیر‘ یونس خان سٹیڈیم‘ میران شاہ‘ بویا اور میرالی میں خواتین کے لیے ووکیشنل سنٹر……اور سب سے بڑھ کر اعتماد کی فضا۔ امید ہی امید۔
……کچھ لوگوں نے کہا یہ بہت ہے‘ لیکن نہیں ابھی کم ہے۔ ابھی بہت کچھ باقی ہے۔ ہر دل پہ مرہم نہیں رکھاجاسکا۔ ہر آنسو خشک نہیں ہوا۔ جنرل حسن اظہر حیات کی تقریر سب سے موثر رہی۔ انھوں نے ایک ایک کرکے ان اقدامات کا تذکرہ کیا جو امن کے لیے اٹھائے گئے اور پھر ان قربانیوں کی طرف اشارہ بھی ہوا جو اس راہ میں دینا پڑیں۔”میرے خاک و خوں سے تو نے یہ جہاں کیا ہے پیدا“۔ یہ جو دنیا ہے۔یہ سب کسی کے لہو کا اعجاز ہے۔یہ بہار‘رنگ اور خوشبو…… یہ سب یوں ہی نہیں ہوا۔
”کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم یہ کام ادھورا چھوڑ دیں گے“۔جنرل کے لہجے میں یقین تھا۔”امن پہلا قدم ہے۔ سماجی اور معاشی بحالی ہماری اگلی منزل ہے۔ یہ منزل طے ہونے تک ہم لوگوں کے ساتھ ہیں“۔مجھے بھی گفت گو کے لیے بلایا گیا لیکن الفاظ کی تنگی کا احساس تھا۔ اخوت کی کہانی فضاؤں میں بکھری تو ملک‘ خان اور جفاکش سپاہی دل پہ قابو نہ پا سکے۔ آنکھیں نم ہونے لگیں۔
جنرل نے خدا حافظ کہا‘تقریب سے نکلے تو اگلی منزل میران شاہ تھی۔ شہر سے ہوتے ہوئے پہلے یونس خان سٹیڈیم۔ کھیلوں کی ایسی خوب صورت سہولت کہیں نہیں دیکھی۔ وسعت میں قذافی سٹیڈیم سے کم لیکن خوب صورتی اور آسائش میں کہیں آگے۔”آپ کوئی بھی ٹیم لائیں۔ وزیرستا ن سے جیت نہیں پائے گی“۔بریگیڈیئر عطا نے مسکراتے ہوئے کہا۔ وہ سٹیڈیم یوں دکھا رہے تھے جیسے کوئی باغبان اپنا چمن دکھاتاہو۔ مشہور کرکٹر یونس خان نے جب اس سٹیڈیم کا افتتاح کیا تو لوگوں کی خوشی دیدنی تھی۔ وہاں سے نکلے اور سکول جاپہنچے۔ ناقابلِ یقین۔ جنرل حیات نے بتایا تھا کہ یہ سکول اسلام آبادکے کسی بھی سکول سے خوب صورت ہے۔ اس وقت اس بات میں خوش گمانی نظر آئی لیکن سکول دیکھ کے لگا تعریف کے لیے چنے گئے الفاظ تھوڑے تھے۔ دنیا جہان کی ہر سہولت۔لائبریری‘ لیبارٹری‘ کمپیوٹر رومز‘ ہوسٹل…… روش روش پھول۔روش روش دیدنی۔ کچھ پرانی تصویریں بھی آویزاں نظر آئیں۔ مہندم عمارت اور شکستہ دیواروں پر گولیوں کے نشان۔افسوس صد افسوس!یہ ان لوگوں کا کام تھا جنہیں پہلاحکم ہی پڑھنے کا ملا۔ سکول سے نکلنے کو جی نہیں چاہ رہا تھا۔ گردشِ ایام پیچھے کو لوٹتی تو وہیں بیٹھ جاتے۔ ہسپتال پہنچے توحیرت کا کچھ اور ساماں روبرو تھا۔ وزیرستان میں ایسے ہسپتال کا تصور محال ہے۔درودیوار سے دردمندی امڈ رہی تھی۔ وہ مارکیٹ بھی دیکھی جو گرا کر بنائی جا رہی ہے۔ درو دیوار کا راکھ ہونا المیہ ہے لیکن تعمیر کا جذبہ ہو تو المیہ امکان میں ڈھل جاتا ہے اور امکان سے زندگی جنم لیتی ہے۔ شہر سے باہر نکلے تو غلام قادر خان کی یاد آئی۔ سول سروس کا پرانا رفیق۔ وزیرستان اس کا وطن ہے اور وطن سے محبت اس کا ایمان۔
“Cheegha – The call from Waziristan the last out post”کے نام سے اس کی کتاب کا بڑا چرچا ہے۔جس نے یہ کتاب نہیں پڑھی وہ وزیرستان کو نہیں سمجھ سکتا۔اس درد کو بھی جس سے یہ لوگ گذرے۔ کمال کی کتاب ہے۔ تاریخ‘ روایت‘ دکھ‘ صدمے‘ خواب‘ بہادری کے قصے اور لٹنے کی کہانی۔مستقبل کی ایک تصویر بنتی ہے۔غلام قادر آزاد منش ہے۔ ہونا بھی چاہیے لیکن شکایت میں خلوص کے سوا کچھ نہیں۔ جب وہ سول سروسز اکیڈمی میں تھا تو ایسا سخن ور نہ تھا۔ وقت کچھ لوگوں کو گداز کر دیتا ہے۔ وفاقی حکومت میں بہت بڑا افسر‘ اب ریٹائرہونے کو ہے۔ کہتا ہے میران شاہ کو علم کا مرکز بناؤں گا۔ تیری آواز مکے اور مدینے۔
شاہ صاحب اور میں دیر تک اسے یاد کرتے رہے۔ واپسی کے سفر میں اس موڑ پہ گاڑی رکی جہاں سے ایک سڑک رزمک کو جاتی ہے۔ میزبانوں کا اصرار تھا کہ رزمک بھی ہو لیں لیکن اتنا وقت نہ تھا۔ سنا ہے یہ چھوٹی سی پہاڑی مری یا سوات سے زیادہ خوب صورت ہے۔ جو لوگ سیاحت کے شوقین ہیں انھیں خبر ہو کہ رزمک اور اس کے گردو نواح دیکھنے کے بعد یورپ کی سیر بے معنی لگے گی۔ انگریز فوجی کو چھٹی نہ ملتی تو وہ رزمک چلا جاتا۔ ناقابلِ یقین منظر‘ بلندی‘ سبزہ‘ چشمے اور شجرسایہ دار۔ وزیرستان کو خوش حال کرنا ہے تو سیاحت کو فروغ دینا ہوگا۔سٹرکیں بن چکیں‘ راستے کھل چکے۔لوگ بھی منتظر ہیں اور سبزہ و پہاڑ بھی کہ کوئی آئے اور حسنِ بے پرواہ کی نمائش ہو۔ وقت کی طنابیں کسنے لگیں۔ واپس میر علی پہنچے اور پھر کچھ ہی دیر میں بنوں۔ سفر ختم ہوا لیکن وزیرستان کی کہانی ختم نہیں ہوئی۔ کچھ باتیں چند روز بعد……(جاری ہے)