19 Sep

Kisanu Ke Liya Bila Sood Qarze-کسانوں کے لیے بلاسود قرضے

پاکستان کا اصل حسن کھیتوں‘ کھلیانوں‘ وادیوں‘ صحراؤں اور کوہساروں میں بکھرا ہوا ہے۔اسی لیے کسی نے کہا کہ پاکستان اپنے دیہاتوں میں بستا ہے۔ لیکن ان دیہاتوں میں زندگی بے حد کٹھن ہوچکی ہے۔ بڑی بڑی جاگیروں کے مالک توشاید اچھی زندگی گذار رہے ہوں لیکن کسان کی حالت نا گفتہ بہ ہے۔محرومی اور غربت کی رلا دینے والی تصویریں۔ روٹی تو جیسے تیسے مل ہی جاتی ہے لیکن تعلیم‘ صحت اور ترقی محض خواب ہی ہیں۔سیاسی‘ سماجی‘ معاشی انصاف سے انکار اور پھر ایک کثیر آبادی کو وہ عزت بھی میسر نہیں جو انسان کی اصل پہچان ہے۔ مصلی‘ کمی‘ موچی‘ چمار‘ ترکھان‘ پاولی …… غریبوں کونجانے کیسے کیسے القاب سے نوازا جاتا ہے۔جب پیشے پہچان بن جائیں تو انسانیت کا دم گھٹ جاتا ہے۔ کھیتوں میں خون پسینہ بہانے اور محنت کرنے والے کو الکاسب حبیب اللہ کی بجائے کمی کہا جاتا ہے۔کمی کا لفظ سن کر کسی حکمران نے کہا کہ اس سے توہین کا پہلو نکلتا ہے۔آج سے ان لوگوں کو کمی نہیں ”معین“کہا جائے۔معین کے معنی ساتھی کے ہیں لیکن ساتھی بنانے کے لیے قلب کی جو وسعت درکار ہے وہ ہم میں کہاں۔ کمی کمی ہی رہے‘ ساتھی نہ بن سکے۔ لفظ بدلنے سے سوچ تو نہیں بدلتی۔
دیہات میں بسنے والے افراد کی زندگی کب بدلے گی۔یہ کڑی دھوپ‘ سلگتے ہوئے دن اور لمبی سنسان راتیں۔ شاید یہ زندگی اس وقت بدلے جب ہماری توجہ ان پر اور ان کے ذریعہ معاش یعنی زراعت پر ہو گی۔ وزیراعظم پاکستان کا کہنا ہے کہ زراعت کی طرف توجہ دیئے بغیر نہ کسان بدل سکتا ہے نہ پاکستان بدل سکتا ہے۔اس میں کیا شک لیکن زرعی شعبہ میں بھی اصل توجہ کا مستحق بڑا زمیندار نہیں چھوٹا کسان ہے۔ وہ کم مایہ جس کی اپنی کوئی زمین نہیں۔جس کے پاس آج بھی وہی صدہا برس پرانا بیل ہے۔ وہی پنجالی اور وہی پرانا سا ہل۔ نہ طرزِ کوہ کن بدلا نہ اندازِ خسروی۔مالیاتی ادارے اسے اپنے قریب پھٹکنے نہیں دیتے۔شاید اس لیے کہ اس کے پاس نہ زمین ہے‘نہ جائیداد‘ نہ سونا ہے‘ نہ چاندی۔
وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا ہے کہ ان ضرورت مند کسانوں کو اگر صحیح رہنمائی اور آسان شرائط پہ قرضے مل سکیں تو یہ ایک انقلاب کی بنیاد ہو گی۔ تیری آواز مکے اور مدینے۔ زراعت کے شعبہ میں پچھلے سال کے دوران بنکوں کی طرف سے چھ سو ارب کے زرعی قرضے دیئے گئے۔ ان قرضوں میں غریب کسانوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔یہ قرضے جن افراد کو ملے وہ بھی شاید زراعت سے دلچسپی نہیں رکھتے۔ انھوں نے ان قرضوں کی بڑی رقم شادی بیاہ یا گاڑیوں کی خرید پہ خرچ کردی ہو گی۔ ملک کی لیبر فورس کابیالیس فی صد زراعت سے منسلک ہے۔ اتنے بڑے شعبہ کے لیے صرف چھ سو ارب کی سرمایہ کاری۔
حکومتِ پاکستان نے کچھ عرصہ پہلے ایک بہت بڑے زرعی پیکج کا اعلان کیا تھا۔حال ہی میں حکومتِ پنجاب نے بھی ایک بڑا قدم اٹھایا ہے جس کے مطابق کسانوں کو پچاس ارب روپے کے بلاسود قرضے دیئے جائیں گے۔ بلاسود قرضوں کا تصور ایک نیا تصور ہے۔ اس تصور سے بہت سے لوگ پریشان ہو جاتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے دریوزہ گروں کو سود کے سوا کچھ سجھائی ہی نہیں دیتا۔ بنکوں کو بھی منافع کے سوا اور کچھ غرض نہیں۔ قرض پہ سود‘ بچت پہ سود‘ انشورنس پہ سود۔ ہم بھول گئے ہیں کہ جو قرض سود کے ساتھ ہو وہ قرض نہیں‘ کاروبار ہوتا ہے۔ بہت عرصہ پہلے میں نے یہ بات پاکستان کے ایک وزیراعظم سے کہی تو انھیں پسند نہ آئی۔ ان کا کہنا تھا کہ بغیر سود کے قرض دیں گے تو آپ خود کیا کمائیں گے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے علمبرداروں کو تخت پہ بٹھا دیا جائے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔
حکومتِ پنجاب کی طرف سے پچاس ارب کے بلاسود قرضوں کا یہ اعلان ایک بہت بڑی خدمت ہے۔ اگر ان پچاس ارب کو ایک مستقل نظام کے تحت ہر سال دیا جائے اور اس کا ہدف تین یا چار ایکڑ سے کم ملکیت کے کسان ہوں تو صرف پنجاب میں دس سے پندرہ لاکھ کسانوں کو قرضہ مل سکتا ہے۔ ان کی آمدنی دو گنا ہو سکتی ہے۔ خوش حالی‘ ترقی‘ آسودگی۔ ایک نیا احساس کہ کسی نے ان کے بارے میں بھی سوچا‘ کوئی ان کے گھر بھی دستک دینے آیا۔ یہ کام اگر ملکی سطح پر ہو تو اور بھی اچھا ہے۔ ہر صوبائی حکومت کو ایسا ہی کرنا چاہیے۔ یہ سب نا ممکن نہیں۔ یہ سب محض خواب نہیں۔وہ جو کسی نے کہا
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ جو اپنے دکھ تھے بہت لا دوا نہ تھے
دکھ لا دوا نہیں ہوتے‘ بس چارہ گر کم ہیں ……پاکستان اپنے دیہاتوں میں رہتا ہے۔ کھیتوں‘ کھلیانوں‘ وادیوں‘ صحراؤں اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر بسنے والوں کا ہاتھ تھامنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ ہمیں دیہاتوں پر توجہ دینا ہو گی۔ سادہ لوح دیہاتی ہماری راہ تکتے ہیں۔ دیہات اجڑ گئے تو بہت کچھ اجڑ جائے گا۔