23 Aug

Muqabil Hai Aina-مقابل ہے آئینہ

راک فیلر سینٹر میں پیش آنے والا یہ واقعہ مجھے ایک دوست نے سنایا۔ راک فیلر سکوائر امریکہ کے شہر نیویارک کی سب سے مہنگی جگہ ہے۔ راک فیلر امریکہ کا امیر ترین شخص تھا۔ تاجر ٗ صنعتکار اور بینکر۔ یہ سنٹر اسی کے نام سے منسوب ہے۔ یہ واقعہ اس سنٹرکی پچاسویں منزل پر ایک دفتر میں رونما ہوا۔میرے دوست کا کہنا ہے کہ 2003 میں اسے کولمبیا یونیورسٹی کے ایک تربیتی پروگرام میں شرکت کا موقع ملا۔ اس پروگرام میں بیس کے قریب افراد شامل تھے۔ مختلف ممالک سے آنے والے ان افراد کو انتظامی امور کی تربیت دی جارہی تھی۔ علم ٗ سمجھ بوجھ اورتجربہ۔ یہ آج کے نہیں مستقبل کے لیڈرز تھے۔ کولمبیا یونیورسٹی میں چند ہفتے گذارنے کے بعد ان لوگوں کو امریکہ کے کاروباری اداروں کا وزٹ کروایا گیاتاکہ یہ لوگ دیکھ سکیں کہ عملی دنیا میں کیا ہوتا ہے۔ کاروبار کس طرح پھیلتا ہے۔ اس گروپ کی پہلی منزل راک فیلر سنٹر کی پچاسویں منزل پہ واقع جنرل الیکٹرک کمپنی GECکا دفتر تھا۔اس کمپنی کے کل اثاثہ جات 130بلین ڈالرز سے زیادہ ہیں۔ یہ اثاثے بہت سے ملکوں کی مجموعی آمدنی سے بھی بڑھ کے ہیں۔ اس کمپنی کا کاروبار سو ممالک میں پھیلا ہوا ہے۔ امریکہ ٗ یورپ ٗ افریقہ ٗ ایشیا اور برِاعظم آسٹریلیا۔ دنیا بھر میں اس کمپنی کے پانچ لاکھ ملازمین ہیں۔ یہ کمپنی نہیں ایک دنیا ہے۔ سمندروں ٗ میدانوں اور صحراؤں تک پھیلی ہوئی۔ سوئی سے لے کر جہاز تک کوئی ایسی شے نہیں جو اس کمپنی کے کارخانوں میں نہ بنتی ہو۔ اس کمپنی کا پینتالیس سالہ چیف ایگزیکٹو سٹیورڈ لیوس دنیا کے اہم افراد میں شمار ہوتا ہے۔ یہ شخص امریکہ کے صدر سے کئی گنا زیادہ تنخواہ لیتا ے۔ پانچ گنا ٗ دس گنا ٗ بیس گنا۔ شاید اس سے بھی زیادہ۔ اس شخص کا ایک ایک لمحہ کئی کئی ہزار ڈالر کا ہے۔ اس سے ملنے کے لئے مہینوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ سٹیورڈ لیوس نے کولمبیا یونیورسٹی سے آنے والے مہمانوں کو اپنی کمپنی سے متعارف کروایا۔ اس کی مصنوعات ٗ اس کے لوگ ٗ اس کی حکمتِ عملی اور اس کا مستقبل۔ اس نے جب ان سو ممالک کی فہرست ان کے سامنے رکھی جہاں اس کی کمپنی کام کرتی ہے تو میرے دوست کا تجسس بڑھنے لگا۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ پاکستان میں اس کمپنی کاکاروبار کس قدر وسیع ہے لیکن اسے یہ دیکھ کر رنج ہوا کہ سٹیورڈ کی کمپنی پاکستان میں کام نہیں کرتی۔وہ خاموشی سے سٹیورڈ کی گفتگو سنتا رہا۔ رنجیدہ اور فکرمند۔ جب سٹیورڈ کی گفتگو ختم ہوئی تو سوال اور جواب کا موقعہ آیا۔میرا دوست اس موقعہ پرخاموش نہ رہ سکا۔ اس نے مائیک سنبھالا اور اپنا تعارف کروانے کے بعد اپنے ملک کا تعارف کروایا اور پھر صرف ایک سوال پوچھا:
Mr. Steward! how can we make Pakistan an attractive place for you?
میرے دوست کے سوال میں ہلکی سی شکایت بھی تھی۔ سٹیورڈ یہ سوال سن کر مسکرانے لگا۔ ”مائی ڈیر! جب میں مہمانوں کی فہرست دیکھ رہا تھا تو اس فہرست میں ایک پاکستانی کا نام دیکھ کر میرے ذہن میں بھی یہ سوال اٹھا تھا۔ پاکستان ہمارے لئے ایک اہم ملک ہے لیکن ہم پاکستان میں کاروبار کیوں نہیں کرتے۔ میری کمپنی کے نزدیک اس کی تین وجوہات ہیں۔کیا آپ سننا چاہیں گے“۔ ”کیوں نہیں“۔ میرے دوست نے اشتیاق سے کہا۔”پہلی وجہ تو یہ ہے کہ آپ کے ہاں ہمارے معیار کے مطابق Human Resourceموجود نہیں۔ وہ ذمہ دار اور دیانت دار لوگ جو کاروبار کو بامِ عروج پہ لے جائیں۔ محنتی ٗ ذہین اور باصلاحیت۔“ سٹیورڈ نے کہنا شروع کیا۔ ”ہم اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ نہیں مانگتے لیکن وہ کم از کم اس معیار کے حامل تو ہوں جس معیار کے لوگ ہمیں دوسرے ممالک میں مل جاتے ہیں۔ کام نہ کرنے کی دوسری وجہ امنِ عامہ اور سیاسی عدم استحکام ہے۔ امن اور سیاسی استحکام کے بغیر کاروبار نہیں ہوتا۔تیسری اور شاید سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ میری کمپنی کی دولت اتنی فالتو نہیں کہ میں آپ کے ہاں کاروبار بھی کروں اور لوگوں کوکمیشن بھی دوں۔“ میرے دوست کے بقول سٹیورڈ کے اصل الفاظ یوں تھے:
I am accountable to share holders of my company. I have no extra
money to bribe your leadership.
میرا دوست سٹیورڈ لوئیس کا یہ جواب سن کر خاموش ہو گیا۔ اس کے پاس کہنے کے لئے کچھ نہ تھا۔ گیارہ سال پہلے جب اس نے یہ واقعہ مجھے سنایا تو میں بھی خاموش ہو گیا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ بھی کچھ کہنے کے قابل نہ ہوں گے۔ آئینہ مقابل ہو تو انسان کہہ بھی کیا سکتا ہے۔ انسانی وسائل ٗ سیاسی استحکام اور دیانتدارقوم۔ جنرل الیکٹرک کمپنی کو نجانے کب تک انتظار کرنا پڑے گا۔ میں تو پرامید ہوں۔ آپ کو بھی پرامید ہونا چاہیے۔