12 Dec

Tahir Yousaf Aur Trust School-طاہر یوسف اور ٹرسٹ سکول

لاہورمیں قائم ٹرسٹ سکول ان چند اداروں میں سے ایک ہے جو دردمندی کے احساس پر قائم ہو ئے۔ اس سکول میں پڑھنے والے بچے اب عملی زندگی میں داخل ہو رہے ہیں۔ اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک ٗ یہ نوجوان ایک بھر پور زندگی کا آغاز کر نے والے ہیں۔ ان میں سے کچھ بچوں کی ابتدائی تنخواہ ایک لا کھ ماہا نہ سے بھی زائد ہے۔ تعلیم کی قدر و منزلت یا تعلیم سے حاصل ہو نے والے فوائد دولت کے ترازو میں نہیں تولے جاتے۔ تعلیم تو کچھ اور ہی شے ہے جو قلب وجاں سے لے کے روح تک کو روشن رکھتی ہے لیکن کچھ لوگ تعلیم پرکی جانے والی سرمایہ کاری کو Rate of return کے تناظر میں بھی دیکھتے ہیں۔اگر معیار یہی ٹھہرا توبھی ٹرسٹ سکول کے طالبِ علم اس رقم سے جو ان پر صرف ہوئی سیکڑوں گنا واپس لوٹانے کی سکت رکھتے ہیں۔ تعلیم سے بڑی دولت اور کوئی نہیں۔ ٹرسٹ سکول اور اس کے روحِ رواں طاہر یوسف مبارک بادکے مستحق ہیں کہ ان کی بدولت بہت سے گھروں کے خواب پورے ہونے لگے۔
ٹرسٹ سکول کے قیام کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔ چند لوگ اپنی زندگی میں کامیابی سے ہمکنار ہوئے تو انہوں نے اپنا اپناقرض چکانے کا فیصلہ کیا۔ وہ قرض جو انہیں کا م یابی کی صورت میں ملا۔ اس قرض کو چکانے کے لئے جس ادارے کی بنیاد رکھی گئی اس کا نام ٹرسٹ سکول ہے۔ ان سات افراد میں طاہر یوسف‘ چوہدری سردار محمد‘ عرفان محمود‘ جسٹس آفتاب فرخ‘ قمر الاسلام‘ زاہد محمود اور محترمہ سائرہ طاہر شامل تھے۔ بہت دن پہلے اس سکول کی ایک تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ مجیب الرحمان شامی ٗ سید ظہور حسین ٗ مغیث الدین شیخ ٗ بطور مہمانانِ گرامی مدعو تھے۔ ان کے علاوہ بہت سے اور معززین۔ طالبِ علموں کی محنت اور لگن۔ اساتذہ کی کوشش اور قربانی۔ مخیر حضرات کا دردِ دل۔ یہ تقریب ایسے بہت سے جذبوں کا مظہر تھی۔ مہمانوں نے اظہارِ خیال بھی کیا۔ مجیب الرحمان شامی نے ان سات افراد کو خراجِ عقیدت کے ساتھ ساتھ سکول کے بارے میں بہت خوبصورت باتیں کہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک بار اشفاق احمد صاحب کو ان کے مرشد نے نصیحت کی کہ اپنا رزق صاف رکھناہے تو جو کچھ کھانے پہ صرف کرتے ہو اتنی ہی رقم اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا کرو۔ اشفاق صاحب نے یہ نصیحت پلے باندھ لی۔ گھر آکر جب حساب کتاب کیا تو علم ہوا کہ ہر ماہ چھ ہزار روپے گھریلو اخراجات پہ صرف ہوتے ہیں۔ وہ سوچ میں پڑ گئے کہ اتنی ہی رقم وہ اللہ کی راہ میں دیں گے تو اس کا انتظام کیسے ہو سکے گا۔ اشفاق صاحب زائد اخراجات پہ لکیر لگانے لگے۔ دوبارہ حساب کیاتو علم ہوا کہ یہ تمام اخراجات چار ہزار میں بھی پورے ہو سکتے ہیں۔ چار ہزار کے ساتھ چار ہزار دیناشاید اتنا مشکل نہ تھا۔ یوں اشفاق صاحب اپنا رزق پاک کرنے لگے۔ چار ہزار اپنے لئے اور چار ہزار مستحق افراد کے لئے۔ جب ان کے بچے سکول کی عمر کو پہنچے تو بانو قدسیہ کو خیال آیا کہ مرشد کی ہدایت کے مطابق بچوں کی تعلیم کو پاک کرنابھی ان کا فرض ہے۔ گھر میں جتنے بچے تھے گھر کے باہر اتنے ہی بچے منتخب کئے گئے۔ ان کی فیس کا بندوبست ہوا۔ کتابیں ٗ یونیفارم اور دوسرے لوازمات۔ اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کے بچے بھی پڑھ گئے اور وہ بچے بھی جو ان کے ساتھ منتخب ہوئے تھے۔ یہ بھی خوش۔ وہ بھی خوش۔ شامی صاحب کا کہنا تھا کہ اگر ہم میں سے ہر شخص ٹرسٹ سکول کی مدد کرکے اپنا اپنا رزق صاف کر لے۔ اپنے بیٹے یا بیٹی کے ساتھ کسی اور کے بیٹے یا بیٹی کی تعلیم کا بندوبست بھی کر دے تو ہمارا معاشرہ خوب صورت ہو جائے گا۔ مجیب الرحمان شامی وہی اصول دہرا رہے تھے جس کا احیاء کچھ لوگوں نے اخوت کے ذریعے کیا۔
شامی صاحب نے ایک اور واقعہ بھی سنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک بار مشہور مغینہ نور جہاں سے پوچھا گیا کہ ”آپ نے اپنے فلمی کیریئر میں کتنے گانے گائے۔“ نورجہاں نے ہنس کر جواب دیا کہ”گانوں اور گناہوں کا کوئی شمار نہیں۔“ نور جہاں کا یہ جواب ہم سب پہ لاگو ہوتا ہے۔ہماری زندگی بھی کسی حد تک نورجہاں سے ملتی جلتی ہے۔ بے شمار لغزشیں اور کوتاہیاں۔ کاش ہم لغزشوں کے اس ڈھیر میں نیکی کا ایک ایک دِیا روشن کر سکیں۔ اپنے اپنے شہر میں ٹرسٹ سکول جیسا کوئی سکول۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو اپنے بچوں کا صدقہ۔صرف چند بچوں کی تعلیم۔ٹرسٹ سکول نے یہ فریضہ جس طرح ادا کیا وہ لائق صد تحسین ہے۔ ہزاروں بچے یہاں سے فارغ التحصیل ہوچکے ہیں۔ ڈاکٹر ٗ انجینئر ٗ استاد‘ کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد۔ لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم اور آپ بھی یہ فریضہ ادا کر رہے ہیں۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ تعلیم ہی روشنی ہے ٗ یہی خدا کی شناخت کا ذریعہ ہے۔ اگر ہم یہ جانتے ہیں تو ہمارا ٹرسٹ سکول کب کھلے گا۔