میں نے امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔میں اس صبح کا منتظر ہوں جو اڑھائی کروڑ بچوں کو سکول جاتا ہو ا دیکھے گی۔ معطر‘ مہربان‘ جاں فزا۔
میں محوِ حیرت ہوں اور خوش بھی!
لوگ کہتے تھے کہ ہم زوال کی انتہا پہ ہیں۔چراغ گل ہوگئے‘ روشنی جاتی رہی۔ اندھیرا ہی اندھیرا‘ دھواں ہی دھواں۔ ہر طرف گھٹن‘حبس‘ بے بسی ……وہ مائیں ہی نہیں جو کسی مجاہد
عبدالستار ایدھی کا پہلا مکالمہ جو انھوں نے اپنے رب سے کیا۔
”اے خدائے ذوالجلال! اے دلوں کے راز جاننے والے!اے میرے عظیم رب!
”میں عبدالستار ایدھی ہوں۔میں نے ساٹھ برس قبل لو گوں کی خدمت کا آغاز‘ میٹھا در
یہ دو اچھے لوگوں کی کہانی ہے۔ ایک قابلِ تقلید مثال۔ ہمیں ایسی مثالوں کو یاد رکھنا چاہیے اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ خدمت دولت سے نہیں معمولی ایثارسے بھی ہو سکتی ہے۔ بس ایک دردمند دل درکار
”میری خواہش تھی کہ وائٹ ہا ؤس سے نکلنے کے بعد بھی لوگوں کی خدمت کروں۔انہیں ایسے موقعے فراہم کروں کہ وہ خوشیوں تک پہنچ سکیں۔ یہ سب کچھ اس لئے ضروری تھا کہ میرے ہم وطنوں نے مجھے ایک
خواتین وحضرات!
کیا ہم واقعی ایک بددیانت قوم ہیں۔
یہ تہمت ہم پہ ہر روز لگتی ہے۔ ملک کے اندر بھی اور ملک کے باہر بھی۔ ہمارے دشمن اور دوست سب یہی کہتے ہیں کہ ہم جھوٹے بددیانت‘ خائن اور
راک فیلر سینٹر میں پیش آنے والا یہ واقعہ مجھے ایک دوست نے سنایا۔ راک فیلر سکوائر امریکہ کے شہر نیویارک کی سب سے مہنگی جگہ ہے۔ راک فیلر امریکہ کا امیر ترین شخص تھا۔ تاجر ٗ صنعتکار اور بینکر۔
کب سورج نکل آئے کب بارش ہونے لگے۔ وہ بس ایک لمحہ ہی ہوتا ہے جس کے بعد سب بدل جاتا ہے۔
یہ بات مجھے مائکل ڈیوڈ نامی ایک سیاہ فام امریکی نے بتائی۔ مائکل ڈیوڈ مجھے واشنگٹن کے مشہور
کبھی کبھی مجھے کچھ گم نام سپاہی یادآتے ہیں۔وہ گم نام سپاہی جن کے سینے پہ کوئی تمغا آویزاں نہیں ہوتا‘جن پہ کوئی کہانی نہیں بنتی‘ کوئی کتاب نہیں لکھی جاتی۔ وہ رات ٗ دن‘ سختیوں سے بے نیاز اپنے
نصف رات گزر چکی تھی۔ کئی بار ہم خود سونا نہیں چاہتے اور کئی بار کوئی اور سونے نہیں دیتا۔ یہ تو یوں بھی چاند رات تھی۔ ہر طرف خوشیاں‘ شادیانے‘ شور شرابا۔ ایسے میں تو نیند اور بھی دور