آپ سیاست پہ قلم کیوں نہیں اٹھاتے؟ کئی دوست اکثرو بیشتر یہ بات کہتے ہیں۔پہلے سیاستدانوں کی کچھ تعریف کریں اور پھر انھیں موردِ الزام ٹھہرا دیں۔ آج کل یہی طریقہ کار ہے۔ کچھ لوگ البتہ کہتے ہیں کہ بادہ
کام یابی کا راز کیا ہے؟
چند روز قبل مجھے انڈس یونی ورسٹی کراچی کے طلبا ء سے بات کرنے کا موقعہ ملا۔ موضوع تو اخوت ہی تھا۔ گفت گو کے بعد یونی ورسٹی کے چانسلر جناب خالد امین نے
”عدل کرنے والے سے بڑھ کر مستجاب الدعا اور کوئی نہیں“۔ یہ جملہ مولانا جعفر قاسمی نے اس وقت کہا جب میں نے ان سے دعا کی درخواست کی۔خوش خصال و خوش جمال جعفر قاسمی کی شخصیت کی بہت سی
گرمیوں کی چھٹیاں گذر گئیں۔ ان چھٹیوں میں کچھ بچوں نے سیر و تفریح کی اور کچھ کام میں مشغول رہے۔ وہ بچے جو کام کرتے رہے ان میں سے چار سو بچے ہمارے پاس بھی پہنچے۔ ان کا کہنا
پاکستان کا اصل حسن کھیتوں‘ کھلیانوں‘ وادیوں‘ صحراؤں اور کوہساروں میں بکھرا ہوا ہے۔اسی لیے کسی نے کہا کہ پاکستان اپنے دیہاتوں میں بستا ہے۔ لیکن ان دیہاتوں میں زندگی بے حد کٹھن ہوچکی ہے۔ بڑی بڑی جاگیروں کے مالک
تھر پارکر۔ تیرہ لاکھ کی آبادی پر مشتمل یہ ضلع غربت اور افلاس کی منہ بولتی تصویر ہے۔ نہ بجلی‘ نہ پانی‘ نہ گیس‘ نہ سڑک‘ نہ سواری‘ سکول کہیں کہیں‘ ہسپتال دور دراز۔عورتیں علی الصبح گھڑے سروں پہ رکھے
پہاڑ کا سفر پہلے قدم سے شروع ہوتا ہے۔
”دو کروڑ بچے“نامی کالم کی اشاعت کے بعد کئی خط اور پیغامات ملے۔ بہت سے لوگ افسردہ ہوئے۔ بہت سے دل گرفتہ اورکچھ اشک بار بھی۔کچھ نے اس عزم کا اظہار
جب تک پاکستان کا ایک شہری بھی غریب ہے‘ ہم سب غریب ہیں۔
گوادر کے ساحل پہ بیٹھا کوئی تھکاہارا مچھیرا‘ اندرون ِ سندھ کا کوئی بدنصیب ہاری‘ خیبر کا کوئی جفاکش مزدور‘ پنجاب کا کوئی نحیف ونزار کسان‘ گلگت
امانت‘ دیانت اور صداقت کے پیکرجسٹس (ر) عامر رضا‘ صاحب ِ فراش ہیں۔
جسٹس عامر رضا کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو خدمت کا کام اللہ کی رضا کے لیے کرتے ہیں۔ ان کی شخصیت کی کئی جہتیں
یہ ہمارے دفتر میں گیارھواں ڈاکہ ہے۔
اخوت۔ دنیا میں قرضِ حسن کا سب سے بڑا ادارہ۔ بقول شخصے اس گئے گذرے دور میں عظمت رفتہ کی کہانی۔ سولہ سال قبل جب اس کام کا آغازہوا تو کسے خبر تھی